’’انگیٹھی میں کوئلہ بھرنے سے پہلے شعلوں کے دھوؤں میں مچھلی کی بھینی خوشبو ساری بستی میں پھیل گئی تھی۔وہ فجر کی اذان سے پہلے ہی کڑاہیوں کے نیچے لکڑیاں جلا کر جھینگے اُبالتی تھی۔ہمارے ہاں ہانڈی میں ماش کی دال پکنے سے پہلے ماں کبھی کبھی ناشتے کے لیے وہاں سے جھینگے بھی لے آتی تھی۔وہ اِس محلے کا ایسا گھر تھاجوگھر کے ساتھ ایک کارخانہ بھی تھا، اور اُس کارخانے کی مالکن حوامدگی تھی۔‘‘
دادی جھینگے کے چھلکے چھیلتے ہوئے کہنے لگی اور میں توجہ سے اُس کی باتیں سُنتا رہا۔
’’ماں کہتی تھی وہ بہت ہی نیک اور بہادر عورت تھی۔اُس کی شہرت کا ڈنکا سمندرپار بجتا تھا،وہ اِس شہر کی امیرترین خاتون تھی۔ اُس کادل سمندر جتنا بڑا تھا، وہ جب تک زندہ تھی تواِس بستی میں کوئی بچہ بھوکا نہیں سویا۔‘‘
دادی اپنی اُنگلیوں کی پوروں سے عینک کے شیشے میں دُھندلی تصویروں کو تلاش کرنے لگی۔
’’میں نے سُکھ بانٹنے والی اُس عورت کو نہیں دیکھا، لیکن اپنے بڑوں سے ہر وقت اُس کی دریا دلی کا تذکرہ سُنا ہے۔میری نظر میں اُس خاتون کے امیر ہونے کی یہی اک روشن دلیل ہے کہ وہ صرف غریبوں کوپالتی تھی۔وہ اپنی دولت تجوریوں میں بند کرکے نہیں رکھتی تھی، جو کماتی تھی خدا کی مخلوق پر لٹاتی تھی۔‘‘
دادی کی ساری باتیں سُننے کے بعد حوامدگی کو اور زیادہ قریب سے جاننے کے لیے میں ملّا فاضل چوک سے ہوتا ہُوا آسکانی ہوٹل کے پچھواڑے بلوچ بک سٹال کی طرف چلا گیا۔
وہاں بنچ پر بیٹھتے ہی میں نے ماسٹر امام بخش صاحب سے پوچھ لیا،’’ حوامدگی کون تھی؟‘‘
’’میری پھوپھی تھی، باپ کی بہن۔وہ مجھے پیار سے اِمی کہتی تھی۔بہت ہی نیک سیرت اور حاضر دماغ عورت تھی۔اُس کے آستانے میں ہمیشہ لنگر لگا رہتا تھا۔اُس کے پاس جو بھی جاتا خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔اُس نے ایک ہی شادی کی ، اُس کی گود اولاد کی نعمت سے محروم رہی۔وہ ہمارے جھونپڑے کی شہ تیرتھی،سارا کنبہ اُس کے کندھوں پہ تھا۔اُس نے اپنے خاندان کی بڑھ چڑھ کر کفالت کی۔اُن کے لیے جگہ خریدی،مکان بنائے اور اُن کی شادیاں کروائیں۔ہمارا گھر تھوڑا پیچھے تھا،وہ ہمیں بھی کھلاتی تھی۔جب بھی اُس کے پاس جاتے ،وہ ایک آدھا کیلو آٹا دے کر کہتی کہ یہ آپ کے رات کا کھانا ہے۔ماسی سارن کی ایک دکان تھی ، اُس سے کہتی حاجی کے بچوں کو آٹا دو!کیا بتاؤں اُس کی ہر صفت میں نیکی جھلکتی تھی۔ اُس کی کوشش یہی تھی کہ لوگ بھوکے نہ رہیں۔اُس کی یاداشت بہت اچھی تھی، میں جب بھی اُس کے پاس بیٹھتا تو وہ مجھے سارے خاندان کا شجرہ بتانے لگ جاتی کہ یہ سب ہمارے سگے رشتے دار ہیں، خاندان کے ایک فرد کا نام بھی وہ بھولتی نہیں تھی،اورمجھ سے کہتی کسی دن کاغذ قلم بھی ساتھ لاؤ یہ سب لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرو۔‘‘
ماسٹر نے عینک اُتارتے ہوئے کہا۔
’’بعض دفعہ میں نے وہاں خود کام بھی کیا، ٹین کے ڈرموں میں جھینگے اُبالے۔ اُن کے نیچے انگارے جلتے رہتے،پھر اُن میں نمک چھڑکتے، جھینگے اُبلتے تو صبح اُنہیں دھوپ میں رکھتے۔خشک ہوجاتے تو اُن کے سر الگ کرتے، پھر اُنہیں گورپاتوں میں لپیٹ کر یہ مال ہندو بیوپاری لانچوں اور بحری جہازوں کی مدد سے مسقط اور دوبئی بیچتے تھے ۔ خاندان کے دو بچے اُس کے بہت قریب رہے، خلیفہ تو اُس کا لاڈلہ تھا اور محمد کی بھی اُس نے ماں بن کر پرورش کی۔ جب پاکستان بنا تو اُس وقت بھی اُس نے گھر گھر جاکرریشمی چادر اور بوسکی کپڑے بیچے۔وہ بڑھاپے میں بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی نہیں رہی،رنگین دھاگوں سے کچھ نہ کچھ بُنتی رہتی تھی۔‘‘
چائے کا آخری گھونٹ پیتے ہوئے میں نے اُس سے آخری سوال پوچھ لیا، ’’بلّو حوامدگی کتنے بہن بھائی تھے؟‘‘
’’دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔بھائیوں میں ایک میرا باپ لشکری تھااور دوسرا خلیفہ عبدالکریم کا باپ ائیدک تھا۔ بہنوں میں ایک کا نام جماعتی اور ایک بہن سارہ تھی۔‘‘
حوامدگی ایک ایسا کریکٹر ہے ،جس کی مثال آگے دسیوں کناروں تک نہیں ملے گی۔اُس کا ماضی اتنا شاندار ہے کہ وہ کسی بھی زمانے میں مر نہیں سکتی۔بیوہ عورت کے لیے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں لیکن اُس نے قسمت کاتالا ہی توڑ دیا۔اپنے لیے اِتنے معاشی ذرائع پیداکیے کہ سارے اندھیرے چھٹ گئے۔زندگی کا یوں ڈٹ کر مقابلہ صرف اپنے لیے نہیں کیا بلکہ سماج میں پسے ہوئے لوگوں کو بھی نفع پہنچایا۔
عورت کے لیے اِس معاشرے نے یہی حد مقرر کر رکھی تھی کہ وہ چوڑیاں پہنے، دوپٹہ اوڑھے، کچن کاچولہا پُھونکے اور پیتل کے برتن مانجھے۔حوامدگی نے اپنی انتھک محنت سے اُس سوچ کو دفن کر دیا جو بیوہ عورت کو کمزور بنادیتی ہے۔اُس کے پاس لگژری گاڑی ،بینک بیلنس اور محل تو نہیں تھا لیکن وہ اِس شہر کی مہارانی تھی۔
حوامدگی اِس شہر کی ایسی عورت تھی جس کا کردار اِس معاشرے کے لیے روشن باب ہے۔ہم دراصل اُس شخص کو جانتے ہیں جس کا فوٹو ہمیں دِکھتا ہے۔گوادر کا ہر بوڑھا حوامدگی سے آشنا ہے۔
’’کیا آپ اُس کے لاڈلے تھے؟‘‘ میرے اِس سوال پر خلیفہ عبدالکریم کی پاکیزہ مسکراہٹ سے ایسا لگ رہاتھا جیسے حوامدگی دروازے کے صحن میں کھڑی چاول چھان رہی ہو۔خلیفہ مجھے اپنے چھدوائے ہوئے کان دِکھا کر کہنے لگا،
’’ میں لڑکا تھامگر پھر بھی اُس نے میرے کانوں میں سونے کے قیمتی بلوچی جھمکے پہنائے۔وہ مجھے ہر وہ چیز دیتی تھی جنہیں اچھے نصیبوں والے بھی نہیں پاتے۔وہ بڑی پرہیزگار اور نیک خاتون تھی، میری تو ماں تھی۔مجھ سے بے حد پیار کرتی تھی،بچپن میں باہر گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے جاتا تووہ دروازے پر کھڑی رہتی تھی کہ شاید دوڑتے ہوئے میں گِر پڑوں تووہ آکر مجھے اُٹھا لے۔خاندان کے 72 لوگوں کے نام اُسے ازبر تھے۔آج ہم جس گھر میں ہیں ،وہ حوامدگی کا ہے۔
اُس کے پاس پُرکھوں کی راکھ نہیں تھی ،وہ پیدائشی رئیس نہیں تھی،یہ ہریالی اُس نے اپنی محنت اور پسینے سے سینچی تھی۔بڑے بڑے ہندو بیوپاری اور لوٹیا تاجر اُس کے سامنے کچھ نہیں تھے۔اُس کے سر پر ایک پرندہ ہر وقت منڈلاتا تھاجیسے رحمت کا کوئی فرشتہ ہو۔ اور کبھی کبھار گھر میں مجھ سے کہتی تھی یہ دیوار پہ رینگتی موٹی چھپکلی مجھ سے باتیں کرتی ہے۔ ‘‘
اُس نے بہت ہی دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھ دی اور اُسی پاکیزہ مسکراہٹ کے ساتھ ہوٹل سے چل نکلا۔
اُس کے جاتے ہی میں دُور سمندر میں بُردین کی چوٹی کے نیچے ماضی کے حسین بادبانوں کولہراتے دیکھ رہا تھا جوجھینگوں کا شکار کر کے کنارے کی اَور لوٹ رہے تھے۔دنیا اِس شہر کو ہوا کا دروازہ کہتی ہے، میں اِس شہر کو حوامدگی کا گھر مانتا ہُوں۔
وہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ اُس زمانے میں بجلی، ٹیلی فون اور ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں تھامگر پھر بھی اُس کا کاروبار دُوردُور تک پھیلا ہُوا تھا۔وہ بیوہ تھی مگر ریت رسم کی سیاہ چادر اوڑھ کر سالوں گھر کے کونے میں نہیں بیٹھی رہی، بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے مردوں کے معاشرے میں ایک عورت کی مردانگی کا بھرم رکھا۔
ایک بے سہارا عورت نے اپنے خوابوں کو تنکا تنکاجوڑکر ایک ایسا گھونسلا بنایا، جس میں نہ صرف اُس کا پریواربلکہ دُور دیس سے آئے تھکے مسافر بھی ٹھہر کر دم بھرنے لگے۔میں نے سابقہ کونسلر ناخدا محمدجہانگیر کے سامنے یہ سوال رکھا کہ حوامدگی رنگ روپ میں کیسی دِکھتی تھی؟تو یکایک سامنے والے مکان کی کھڑکی کے تاک پر کسی نے چمنی روشن کردی اور آسمان سے چاند نکل آیا۔
’’ وہ گورا چٹا اُس کا چہرہ چاند جیسا گول تھا، اُونچے قد کی صحت مند عورت تھی۔بہت عبادت گزار اور پاک دامن تھی۔ رات کو ہر وقت تسبیح پڑھتی، قرآن کی تلاوت کرتی تھی۔مجھے چند آیات اُسی نے سکھائیں، جن میں درود تاج اُس نے مجھے بچپن میں حفظ کروایا تھا تاکہ جن وبلا سے محفوظ رہا جاسکے۔وہ ایک ایسی عورت تھی جو ہمارے خاندان کے ذہین مردوں سے بھی زیادہ سمجھ دار تھی۔
بچپن میں اُس کی ممتا میرے اُوپر بادل کی طرح چھائی رہی۔ شوہر کی فوتگی کے بعدوہ بیوہ ہوگئی تھی، ایک بیوہ کے لیے زندگی کے باقی دن بہت کٹھن ہوتے ہیں ۔ وہ سُرخی پاؤڈر والی عورت نہیں تھی،اُس کے لیے سیدھا راستہ یہی تھا کہ وہ اب کوئی کام کرے۔اُس نے اپنے زیور بیچ کر تھوڑے پیسے جمع کیے، اِنہیں پیسوں سے اُس نے جھینگے کا بیوپار شروع کیا اور حوامدگی کے نام سے مشہور ہوگئی۔
اُس کا کاروبار اتنا وسیع تھاکہ ہمارے گھر میں جھینگوں کو سُکھانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی تھی۔اُس کے پاس بکھار نہیں تھا، جس مکان میں ہم سوتے تھے اُس کے اندر ایک طرف جھینگوں کا انبار لگا رہتا تھا۔جھینگے خشک ہوتے تو شہر کے تاجروں کے ساتھ مقامی خاتون سوداگریہ مال مسقط پاس کرتی۔اُس کا کام جتنا آگے سفر کرتارہا اُس کی آمدنی بڑھتی گئی۔گوادر میں اُس زمانے میں مچھلی کی ایک فیکٹری بھی نہیں تھی۔ یہی مچھیروں کی آچار والی کشتیاں تھیں اور حوامدگی کا کارخانہ۔
آسمان پر اتنے تارے نہیں ہیں جتنا سمندر میں اُس وقت جھینگوں کا جُھرمٹ ہُوا کرتا تھا۔ جب مچھیرے بڑی تعداد میں جھینگوں کا شکار کرنے لگے تو اُس نے دیگر لوگوں کو بھی اپنے ساتھ کام پہ لگایا۔ اُن لوگوں نے یہاں کام کیا، کھایا پیا، اِسی گھر کے ہوگئے۔عربوں نے جب یہ جھینگے دیکھے تو عمان گورنمنٹ اور دیگر تاجروں کے ہمراہ والی نے بھی اُس کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔عرب تاجروں کے ساتھ اِس سودے میں اُسے تگڑا منافع ملا۔
جب میں پردیس گیاتومجھے کچھ ایسے لوگ بھی ملے،اُن میں ایک شخص آدم کاتعلق کراچی سے تھا۔اُس نے کہا میں نے آپ کے گھر حوامدگی کے ساتھ کام کیا ہے، اور مجھے پاسپورٹ بھی حوامدگی نے دِلوایا۔اکیلا میں نہیں ہُوں ایسے پانچ چھ اور لوگ تھے۔بحرین کا ایک آفیسر ہے اُسے بھی حوامدگی کی سفارش پر پاسپورٹ ملا۔
لکڑیوں سے لدے اُونٹوں کے قافلے پہلے گلگ نہیں جاتے تھے،ہمارے گھر آتے۔مانو ہمارا گھر بازار کی دوسری منڈی تھا۔ اُس دور میں کسی کو دنیاوی شوق نہیں تھا جیسے ٹیلی ویژن دیکھیں یا موبائل خریدیں۔ بس بھوک لگنے پر کھانے کی فکر لگی رہتی تھی۔ اور جسے بھی بھوک لگتی وہ دستک دیے بغیر حوامدگی کے گھر چلا آتا۔اُس وقت آٹا چاول سستا تھا، جتنی بڑی دیگ چاول کی تھی اُتنے ہی بڑے منجل میں جھینگے کے شوربے بنائے جاتے۔کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ غریب فقیر بھی اپنی بھوک مٹاتے۔
وہاں کھانے پر کوئی قدغن نہیں تھی، حوامدگی کے گھر کھانے پر مکمل آزادی تھی۔حواکا ایک وارث بھی زندہ ہے تو اُس سے پوچھو،تمہیں حواکا کھاناحلال یا حرام؟تو وہ یہی کہے گا حلال!‘‘
تاریکی میں اُس کے زوردار قہقہے نے دُوردُور تک پھیلی خاموشی توڑ دی۔محمدجہانگیر کی باتیں سُن کر میرے من بھی حوامدگی کی خانقاہ میں کھانے کی بھوک بڑھ گئی تھی۔میں نے یہ جگہ بچپن میں دیکھی تھی جہاں بلّو حوامدگی کام کرتی تھی۔یہ بہت اُونچی جگہ تھی ،عام گھروں سے خاصی مختلف تھی۔میں نے آدھی سانس میں پوری بات کر لی اور محمد ایک ہی سانس میں بول پڑا۔
’’مجھے گھر والوں نے بتایاکہ کہدہ کے گھرکے سامنے والی زمین جہاں عیسیٰ چائے والے کا چھاپڑا ہے ،یہ حوامدگی کی جگہ ہے۔ جوآج ڈوریہ کے نام سے مشہور ہے۔اُس زمانے میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا، اُس کی تاریخ ہمیں نہیں معلوم، مگر اپنے بزرگوں سے سُنا ہے کہ دیمی زر کا پانی پدی زر کے سمندر میں شامل ہوگیا تھا۔والی ھلال نے دیکھا یہ گھر بہت متاثر ہے اور سمندر کے کافی نزدیک ہے۔ لہٰذا والی ھلال نے خود آکر اُسے یہاں اُونچی جگہ پر گھر بنانے کی اجازت دی کہ یہاں پر آپ سمندر کے بے رحم تھپیڑوں سے بھی محفوظ رہیں گی۔
وہ مجھے اپنا نواسہ مانتی تھی، یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہے میں اُس کا نواسہ نہیں ہُوں ۔حوامدگی میری دادی جماعتی کی بہن تھی جو جُمل کے نام سے جانی جاتی تھی۔یہاں دوسری خواتین سوداگر بھی تھیں،اُن میں لاڈوکی چنو تھی، دُرناز تھی، محتاج تھی اور مرِیم باران تھی۔وہ سب بیوائیں تھیں، محنت کر کے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتی تھیں۔
میں نے جب پوری طرح ہوش سنبھالا تو وہ عاجز ہو چکی تھی۔اور بڑھاپے میں اُس کا کاروبار بھی بوڑھا ہوگیاتھا۔ اُسے اتنا نقصان ہُوا کہ بیوپار کی گدّی بیٹھ گئی۔آخر میں وہ اتنی مجبور ہُوئی کہ کسی پہ بوجھ نہ بننے کے لیے پڑوس میں بھیک مانگنے لگی۔ کچھ عرصہ بعد اُس کی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی تھی۔ چلنے پھرنے سے وہ قاصر تھی، زندگی پُرانی بوسیدہ چادر میں لپٹی چارپائی پر آکر ٹھہر گئی تھی۔رات کو میں سنیما سے لوٹتاتو وہ مجھے آواز دے کر بلاتی، میں ہر شب اُس کے پیٹ کی مالش کرتا۔اُسے آرام ملتا اور وہ سکون سے سو جاتی۔
وہ اپنے لوگوں کوفتنے اور فساد سے ہمیشہ دُور رکھتی تھی۔اُ س زمانے میں کہتی تھی شراب حرام ہے، اِس کے پاس نہیں جاؤ بیٹا!اور اپنے قریبی رشتے داروں کو قرآن پڑھنے کی تلقین کرتی کہ سارے سکّے کھوٹے ہیں اپنے پلّو میں نیکی سمیٹ لو،دنیا خالی ریت ہے۔ مجھے اُس کی خدمت میں جنت دکھتی تھی، اور اُسی خدمت کا نتیجہ ہے میں اپنے بزرگوں کی خدمت کرتا ہُوں۔شبِ قدر جب بھی آتی ہے اُس کے نام نوافل پڑھتا ہُوں۔
انجانے میں مجھ سے ایک چُوک ہوگئی ، میں نے اپنے بچوں کا نام حوا نہیں رکھا۔ پھر مجھے یہ احساس گھائل کرتا رہا اور میں نے فیصلہ کیاکہ اگر میری بیٹی پیدا ہُوئی تو اُس کا نام حوا رکھوں گا۔ میرے لڑکے کے ہاں بیٹی ہُوئی تو میں نے اپنی نواسی کا نام حوا رکھا۔حوامدگی اب پھر سے ہمارے آنگن میں مسکرانے لگی ہے۔ (اُس کی آنکھیں نم ہوگئیں)
آخری دنوں میں اُسی مکان میں وہ دنیا سے پردہ کر گئی۔اُس رات میں گھر پر نہیں تھا، جب مجھے خبر ملی تو ایسا لگا میرے پیروں تلے جان نکل گئی ہے۔زمین ایسے کھسک گئی تھی جیسے جنگل کا ایک پیڑ تیز آندھی کی جکڑ سے کٹ گیا ہو۔میں اکیلا ،تنہا ہو گیا۔ میرے لیے وہی میرا باپ اور وہی میری ماں تھی۔‘‘
حوامدگی پُرانے قبرستان میں گنبد کے سائے میں دفن ہے ۔اُس کے قریبی جاننے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ عورت اِس بہادری سے زندگی کی بازی جیت چکی ہے کہ کسی بھی زمانے میں اُسے موت نہیں آسکتی۔