پیارے ڈاکٹر
ہم دونوں نے 14سال سوشلسٹ پارٹی میں سیاست کے بہت سے نشیب وفراز سے بھرے گذارے۔ بالآخر 1988میں ہم ایک دوسرے کے ہمسفر نہ رہ سکے ۔ اُس کے اسباب پر اب بحث فضول ہے۔ اتنا ضرور کہونگا جو کچھ ہوا تھا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
1988تا 1999تک کا سفر ہم نے الگ الگ ڈبوں میں کیا اور 99میں پھر ایک بس میں سوار ہوئے۔ نہ جانے پھر کیوں تم اُس بس سے اُتر گئے ۔
تم قبائلی سماج کی باقیات میں رہتے ہو اور میں جاگیری باقیات کے سماج میں ۔ میں نے محنت کشوں کی سیاست میں49سال گزار دیئے زندہ رہا تو 2016میں گولڈن جوبلی منادوں گا
سنگت اور شاہ محمد کو الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ خاص طور پر تمہارا انداز تحریر اور اپنی بات کرنے کا ڈھنگ کہ سانپ بھی مرئے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے بہت کم لکھاریوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ سنگت کے ذریعہ بلوچستان کے نوجوانوں کو تاریخ، ادب اور سیاست کو سمجھنے کا ایک نیا اسلوب تو ضرور ملا لیکن ملکی سیاست کے دھارے میں بلوچ نوجوان ، عورتیں اور محنت کش کو جوڑنے کے شعور کا فقدان اورسامراجی ریشہ دوانیاں حالات کو کس سمت لے جائیں گے ۔ کیا اکیلے بلوچ انکا مقابلہ کرپائیں گے۔
سنگت جب بھی ملتا ہے کہیں سرسری اور کبھی غور سے بھی دیکھتا ہوں ۔نئے لکھنے والوں کے مضامین بھی اچھے ہوتے ہیں۔ تم کبھی مجھے گورکی نظر آتے ہو کبھی قوم پرست۔ اور کبھی کچھ اور ۔ تم جو بھی ہو گریٹ ہو۔ مارکسی علم کو پھیلانے میں بھی تمہارا کردار اہم ہے۔ اُمید ہے تم اور سنگت عوام کے شعور کو بڑھانے میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہو گے۔
تمہارا خادم
حسن عسکری سانگھڑ