سنجیدہ ادبی اختلافات کے ساتھ ہم اِس مضمون کو شائع کررہے ہیں۔
ایڈیٹر
تنقید کے متعلق ایک بات بڑے اعتماد اور وثوق سے کہی جاتی ہے کہ جب کوئی تخلیقی فن پارہ جنم لیتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی تنقید بھی پیدا ہو جاتی ہے۔یہ بات بلوچستانی اردو کے تنقید کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ اگر تخلیق اور تنقید ساتھ ساتھ ہیں آپس میں جڑے ہوئے ہیں تو پھر بلوچستان میں اردو ادبی تخلیقات کے ساتھ تنقید کہاں ہے؟؟ ۔یہ سوال مجموعی ادب کے لیے بھی کہا جا سکتا ہے تاہم ہمارا مقصد بلوچستانی ادب اور تنقید کو موضوع بحث بنانا ہے۔’تخلیق اور تنقید ساتھ ساتھ ہیں’ مجموعی طور پر تنقید، تخلیق کے لیے نئے سوال کھڑی کر دیتی ہے جن کے جواب تک رسائی تنقید کی اپنے صحت کے لیے ضروری ہے۔تنقید محض واہ واہ نہیں اور نہ ہی تخلیق کار نقاد ہے۔ اگر تنقید کو واہ اور تخلیق کار کو نقاد سمجھ لیا جائے تو تنقید اس ‘تخلیق اور تنقید ساتھ ساتھ ہیں’کے کلیے سے بری ذمہ قرار دی جا سکتی ہے۔تنقید اور تخلیق کا باہمی رشتہ انتہائی اہمیت اور سنجیدگی کا حامل ہے۔تنقید نہ صرف تخلیق کی تفہیم کرتی ہے بل کہ ساتھ ساتھ تعبیر بھی کرتی ہے جس سے تخلیق کے معنیاتی جہات واضح اور روشن ہو جاتے ہیں۔تخلیق اور تنقید کے نازک اور مضبوط رشتے کو بلوچستانی ادب کے تناظر میں ڈسکس کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ بیسویں صدی میں جو تخلیقی فن پارے منظر شہود پر آئے ان کو اپنی شناخت قائم کرنے میں جتنا عرصہ لگا اس سے کئی گنا زیادہ وقت تنقید کو ادبی فضا میں آنے میں صرف ہوا۔اس کی تمام تر ذمہ داری نہ تو بلوچستانی ادب پر ڈالی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان ادیبوں پر جو اس وقت خود ادب کی بالائی سطح میں طبع آزمائی کر رہے تھے۔بلوچستان کے ادبی فضا میں جن لوگوں نے اس پیچیدہ اور تہ دار راستے کو منتخب کرکے کام کیا وہ تحسین کے لائق ہیں گو کہ ان کا کام مجموعی اردو کے تنقیدی فضا کے برابر نہیں ہے پھر بھی انہوں نے ایک ادبی روایت کو زندہ رکھنے کی حد الامکان کوشش ضرور کی۔
بیسویں صدی مختلف تحریکوں اور تھیوریز کی حامل ایک بار آور صدی ہے جہاں مجموعی اردو تنقید مقامی رنگ کے ساتھ ساتھ مغربی رجحانات کے زیر اثر کافی پھلی پھولی۔بیسویں صدی میں جہاں ایک طرف ساختیات ،پس ساختیات ،تشکیل اور رد تشکیل کے مباحث نے سر اٹھایا تو وہیں دوسری طرف جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے تناظرات اور تھیوریز نے تنقید کو ایک خود مکتفی علم کی صورت میں روشناس بھی کرایا۔بیسویں صدی کی متغیر صورت حال نے اردو ادب کے منظرنامے میں بڑی واضح تبدیلیاں کیں۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا جو عالمی ادبی منشور کو تبدیل کرنے کا موجب بنا تھا۔ترقی پسند تحریک نے ادبی متن کے ڈسکورس کو اپنے منشور کا اجمالی جامہ پہنایا جس سے ادبی متن میں فکری اور فنی تبدیلیں رونما ہوئیں۔ 1960 کے لگ بھگ ترقی پسند تنقید نے نئے فکری زاویے تشکیل دئیے اور خاص کر ادب کی پوری ماہیت پر از سر نو جائزہ لینے پر زور دیا۔ادب کی مجموعی روح کے مطابق جب کوئی تخلیقی تجربہ مختلف اقدار اور زاویوں سے گزر کر متشکل ہوتا ہے عین انہی معیارات کے متوازی تنقید بھی اپنے اصول اور ضوابط تشکیل دیتا ہے کیوں کہ ہر تخلیق تنقید سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس پر جو تنقیدی ڈسکورس قائم کی جائے وہ اس کے ہی تخلیقی تجربات سے اخذ کی گئی ہو۔
بلوچستان کی ادبی فضاء عالمی ادب کی صورت حال سے یکسر مختلف ہے۔ اس کی انفرادیت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں کا قدیم ادب انفرادی طور پر تشکیل پاتا ہے جو خالصتا مقامی ہے اس پر کسی بیرونی منظرنامے یا عصر کی چھاپ نہیں۔بلوچستانی ادبی روایت ایک ہی تسلسل سے آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ ہر دہائی میں ایک نئے تصور اور آہنگ کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔بلوچستان کے انفرادی ادب کا عالمی اور قومی ادب سے جداگانہ حیثیت ہی اسے مفرد اور یکتا بناتا ہے۔لیکن اس سے قطعا یہ مراد نہیں کہ بلوچستانی ادب عالمی ادب کے اثر سے یکسر محفوظ رہا ہو۔ وہ اس لیے کہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد، عالمی اور مقامی ادب کی آمد سے ان کے اثرات کو مقامی ادب پر واضح طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستانی اردو تنقید بیسویں صدی کے آواخر تک مختلف اساسی تھیوریز سے غیر مانوس اور غیر مربوط رہی اس لیے یہاں جو بھی تنقید لکھی گئی وہ محض تخلیق کے تاثر کو قبول کر کے لکھی گئی۔تاثراتی تنقید بلا شبہ تنقید کا حصہ ضرور ہے لیکن وہ تنقید کی جملہ قدروں کا ایک فیصد بھی حصہ نہیں۔ در حقیقت بات یہ ہے کہ نئی تنقید اپنے perspective میں معاصر تھیوری کے نئے منظرنامے میں داخل ہو چکی ہے۔
بلوچستان میں اردو تنقید کی قابل فہم صورت میں اجاگر نہ ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی زبانوں نے اردو کو اس طرح پنپنے نہیں دیا جس طرح پاکستان کے دوسرے صوبوں میں وہ پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس طرح کی صورت حال کا درپیش ہونا دراصل اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں کے ادیب اپنی اپنی مقامی زبانوں میں بھی تخلیقی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے پھر ان کو ان کے مقامی زبانوں کی تہذیب وثقافت کے تحافظ کا خطرہ بھی لاحق تھا کہ کہیں ان کی صدیوں پر محیط تہذیب تاریخ کے تاریک پردوں میں گم نہ ہو جائے۔بلوچستان میں اردو تنقید کی ایک سنجیدہ کوشش 1980ء کی دہائی میں جنگ اخبار کی صورت میں نظر آئی۔ جس نے اردو ادب کے ساتھ ساتھ یہاں کے ادب کو بھی ایک مخصوص پلیٹ فارم میسر کرایا تاکہ بلوچستانی اردو ادب خاص کر اردو تنقید کو قومی سطح کا فروغ حاصل ہو۔لیکن یہاں بھی کسی حد تک یہی مسئلہ درپیش آیا کہ تنقید کو اس کے تکنیکی لوازمات کے بغیر لکھا اور سمجھا گیا۔دراصل بلوچستان میں اردو تنقید کو ایسے ادیب کم ہی میسر آئے جنہوں نے یہاں کی تنقید کو عالمی اردو تنقید کے تناظر میں دیکھا اور برتا ہو۔عالمی تنقید مختلف تھیوریز کی ترجمانی کرتی ہے جو مقامی ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔لیکن یہاں کی مجموعی صورت حال اس قابل نہیں تھی کہ اس کے ادبی متون کو آفاقی یا مقامی سطح کا فروغ حاصل ہو۔
بیسویں صدی عالمی افق پر مختلف تبدیلیوں کے ساتھ وارد ہوئی جہاں طاقت کے جنگی جنون نے جنگ عظیم اول اور دوئم کی صورت میں ہولناک تباہیوں سے نہ صرف انسانوں کو متاثر کیا بل کہ ان جنگوں کے impacts سے عالمی سطح پر اقتصادی ،معاشرتی ابتری بھی پیدا ہو گئی۔ان جنگوں نے براہ راست عالمی ادب کے ساتھ مقامی ادب کو بھی متاثر کیا۔جس سے ادب نئے نئے موضوعات سے متعارف ہوا۔یہ موضوعات انسانی سفاکی،بے رحمی،محرومیوں اور تنہائی کے شدید احساسات پر مشتمل تھے جس نے ادبی متن کے امیجری اور استعارتی نظام میں نئی نئی تبدیلیاں کیں۔عالمی سطح پر رونما ہونے والے مختلف تخلیقی تجربات کو تنقید نے نہ صرف قبول کیا بل کہ ایک متوازن انداز میں ان کی سمت نمائی بھی کی۔جس سے عالمی سطح پر ایک مثبت لہر سامنے آئی۔عالمی ادب سے براہ راست متاثر اردو ادب عالمی منظرنامے سے زیادہ مختلف نہیں تھی کیوں کہ 1857 ء کی جنگ آزادی یہاں کی ادبی فکر کو ایک طرح سے تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔سرسید کے اخلاقی ،اصلاحی افکار ،آزاد اور حالی کی مصلحت پسند شاعری ،منشی پریم چند کی افسانہ نگاری اور نظم کی تخلیقی امکانات نے نظری طور پر عالمی ادب اور مقامی ادب میں یکسانیت پیدا کر دی تھی۔
پاکستان میں اردو تنقید کا ابتدائی سفر جو حالی کے مقدمہ شعروشاعری سے چل پڑا تھا قیام پاکستان ساتھ ہی اپنا تنقیدی ڈسکورس قائم کرنے میں کافی مشکلات کا شکار رہا کیوں کہ اس وقت کے موضوعات فسادات کے مرکزی دائرے سے نکل نہیں پا رہے تھے لیکن فکری تحریکوں ترقی پسند تحریک ،حلقہ ارباب ذوق کے عملی رجحانات ،جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے متنوع فکری اصطلاحات نے نظری اور عملی اعتبار سے تنقید کو مضبوط کیا۔تنقید کی یہ مضبوطی بیسویں صدی میں بلوچستانی ادب پر اپنی واضح چھاپ اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئی وہ اس لیے کہ جس طرح کی فضاء بندی مجموعی اردو کو ابتداء میں حاصل ہوئی وہ بلوچستانی ادب کو نصیب نہیں ہوئی۔
بلوچستان میں حقیقی تنقیدی اور ادبی تبدیلیاں اکیسویں صدی میں ہوئیں۔اکیسویں صدی کا سورج اپنے ساتھ مختلف تبدیلیاں لے کر ظہور پذیر ہوا۔ ان تبدیلیوں میں نائن الیون کا غیر معمولی واقعہ اپنی نوعیت اور ہیت کے اعتبار سے بالکل الگ تھا جس نے بلاواسطہ اس خطے کے جغرافیائی conditions سمیت ادب کو بھی متاثر کیا۔اس اثرپذیری نے فرد کو ایک ایسی بدلتی ہوئی صورت حال سے دوچار کیا جہاں وہ تنہائی کے آسیب زدہ سائے میں گھٹ کے مرجائے یا پھر اپنے انفرادی اور قومی تشخص کی تعمیر و ترقی میں فعال کردار ادا کرے۔نائن الیون کے بعد کے ادب کو اگر اکیسویں صدی کا آغاز تصور کیا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا کیوں کہ نائن الیون کے بعد کا بلوچستانی ادب،مجموعی اردو ادب اور عالمی ادب پہلی مرتبہ ایک صف میں ایک ساتھ نظر آئے۔نائن الیون بلوچستانی ادب کا ایک ناگزیر حصہ ہے خاص کر شعری اصناف نے اس کے اثر کو بہت زیادہ قبول کیا۔بلوچستان کے شاعروں نے نائن الیون کے Impacts کو کس طرح اساسی تمثالوں میں پیش کیا ہے اسے بہ غور دیکھنا ضروری ہے۔
دانیال طریر:
اندھیرا کاٹتا ہے،نوچتا ہے
ماس کے ٹکڑے چباتا،چیختا ہے
گونجتا ہے
اندھیرا ہے خدا)
میرے تو کھیت تھے سپنے تھے گھر تھے
زمیں چیخوں بھری میری نہیں تھی
(خواب کمخواب)
محسن چنگیزی:
جو گھونسلا تھا ابابیل کا بکھر بھی گیا
یہ کیسی بے گھری میرے مکان میں آئی
خیمہ دوزی کا ہنر سیکھ رہا ہوں محسن
اس زمانے سے کہیں نقل مکانی کے لیے
(حرف سبز)
نوشین قمبرانی:
سْکھ کے موسم کی نظموں سے، لفظوں کے مْردوں کی بْو
پھیلتی جارہی ہے یہاں
جبکہ سازِ بقا کی صداؤں میں محرومیوں،
بیبسِیوں کی آہیں گْھٹی جاتی ہیں
(وسائل)
قندیل بدر:
پربتوں سے پرے
لال گولہ گرا
اک دھماکہ ہوا
سرمئی دھول کا اک بگولہ اڑا
(شام ڈھلنے کو ہے)
احمد وقاص:
میں خود کو دیکھ رہا ہوں تباہ ہوتے ہوئے
بڑا سکون مری بے بسی میں شامل ہے
بدن جلاو کہ اب اور کوئی چارہ نہیں
ستم گزیدہ شب اور کوئی چارہ نہیں
(ستارے منتظر ہیں)
بلال اسود:
سب کچھ گورا ہے کالک کا کال بڑا ہے
جھوٹ ہی حق ہے اور سچ پائیمال بڑا ہے
باس فضا میں،بھوکی آنکھیں منظرمیں ہیں
پاوں دھریں کیسے گلیوں میں رال بڑا ہے
خیام ثناء:
آگ برساتی ہوا،راکھ کلی،پھول،پرند
تتلیو! کوچ کرو یہ جو چمن ہے بن ہے
سمے کے شانوں پہ رینگتا وقت مر رہا تھا
کیوں آسماں،آسمان کو پار کر رہا تھا
(چیختے سائے)
ان چند مثالوں سے بلوچستانی شعری تعبیر کو نائن الیون کے زیر اثر بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔بلوچستانی اردو تنقید نے نائن الیون کے بعد تخلیق ہونے والے ادبی متن معروضی حقائق کے ساتھ دیکھا اور پرکھا ہے۔بلوچستان میں تنقید اکیسویں صدی میں اپنی اصل روح کے ساتھ اہل نظر کی توجہ حاصل کرنے میں اس وقت کامیاب ہوئی جب دانیال طریر کی پہلی تنقیدی کتاب ’’بلوچستان شعریات کی تلاش‘‘ 2009ء میں منظر عام پر آئی۔اس سے پیش تر تنقیدی مضامین روح عصر کی اصولی وابستگیوں سے عاری تھیں۔’بلوچستان شعریات کی تلاش’نے ایک سنجیدہ اور تہ دار تنقید کی عملی صورت کو قومی سطح کے ادب پر اجاگر کیا جس کو نہ صرف مقامی بل کہ عالمی سطح پر سراہا گیا۔اس کتاب میں شامل پندرہ تنقیدی مضامین مختلف ادوار کے مختلف مزاج کے حامل شعراء پر مبنی ہیں۔اس کی معقول وجہ بہ قول صاحب کتاب:
"تاکہ متنی یکسانیت تنقیدی عمل پر غالب نہ ہو”
اس کتاب میں بلوچستانی شعراء کے کلام کو نئے تنقیدی ڈسکورس سے جوڑ کر دیکھا اور سمجھایا گیا ہے۔تنقید کی اس قدر سنجیدہ کاوش، بلوچستانی شعریات کو قومی سطح کے ادبی منظرنامے میں ان کے جائز مقام کو دلانے کی پہلی کوشش ہے۔اس سے پیش تر بلوچستان بلوچستان کے شاعروں کو کوٹہ کا شاعر کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔دانیال طریر کی دوسری تنقیدی کتاب”معاصر تھیوری اور تعین قدر” ہے۔ جو 2012 ء میں چھپ کے قومی سطح پر اجاگر ہوئی۔اس کتاب نے اب کے بار مقامی شعرا کے علاوہ قومی سطح کے ثروت مند شعرا کے کلام کو ناصرف نئے بیانیے کے تناظر میں ڈسکس کیا بل کہ ان کے جداگانہ رنگ اور آہنگ کی ترجمانی بھی بڑی ذمہ داری کے ساتھ ادا کی۔۔معاصر تھیوری کے متحرک نقاد کی تیسری تنقیدی کتاب”جدیدیت مابعدجدیدیت اور غالب” ہے۔اس کتاب نے عالمی سطح پر غالب کے شاعری کو مختلف تناظرات میں رکھ کر ڈسکس کیا جو غالب کو نہ صرف جدید ،مابعدجدید بل کہ اس سے آگے تھیوری کے زیل میں بھی ثابت کرتی ہے۔بلوچستانی اردو تنقید کا اگلا پڑو کس فکری پیراڈیم میں ہو گا یہ کہنا قبل از وقت ہے ہاں البتہ امید رکھنا ایک ادبی قدر ہے جسے بہر طور زندہ رہنا چاہیے۔