صدیوں سے ساکت کھڑی تُو
کس کے انتظار میں ہے
اس طرح اُٹھائے
پُر وقار تیرایہ انداز
جبر ہے یا اختیار
تجھ سے ملاقات کی خواہش
مجھے اس دشت میں لے آئی
تُو جسے قدرت نے تراشا ہے
تیرے قدموں میں
گوادر کے ساحل پر
میری تہذیب بستی ہے
شاعری ، موسیقی ، کتابیں
اُمید کی شہزادی تیرے گہنے ہیں
جوتو نے اِس دشت کے باسیوں کو
دان کردیے ہیں
اُس عظیم خداوند کی
کن کن نعمتوں کو جھٹلائیں گے
انسانیت کے دشمن
گوادر کے ساحل
توسلامت رہے
تہذیبوں کے ملاپ کی وسعت کے ساتھ
اور سمندر اپنی گہرائی میں
فن کار کی روح کو سموئے ہوئے