(جون1930۔۔۔۔۔۔ 16مئی2012)
اس کا قد چھوٹا تھا( نگاہ بہت بلند)، رنگ گورا چٹا ( انتہائی غربت کے باوجود) ۔وہ ہمیشہ کلین شیو رہا کرتا تھااور ہمہ وقت پتلون پہنے ہوتا تھا۔ عزبت میں جتنی خوش پوشی ہو سکتی ہے اسلم اتنا ہی خوش پوش شخص تھا۔ عجیب ایبٹ آباد ی تھا وہ ،جسے میں بھٹو کے کسی اور کو دیے گئے مشہور نام کے حوالے سے ’’ آگے پیچھے خان ‘‘ کہا کرتا تھا۔کوئی اسے ریڈیو کہتا تھا ، کوئی اعوان صاحب اور کوئی ’’تایاجی
‘‘۔بہت خوش مزاج شخص تھا ۔ایبٹ آبادی محمد اسلم اعوان(جیل میں بھی، ریل میں بھی اور میکلوڈروڈ پہ بھی) اتنا زیادہ اور اس قدر تیز رفتاری سے بولتا تھا اور اتنا بولتا تھا کہ اس کے نام کے ساتھ ریڈیو لگ گیا۔ اور پھراصل نام گیا بس ریڈیو رہ گیا ۔ وہ تھا بھی بہت گپّو آدمی ۔محفلیں پسند کرتا تھا ۔ اور ظاہر ہے اسے بولنا تو صرف انقلاب کے بارے میں ہی آتا تھا، انقلابی تحریکوں کے بارے میں۔وہ ہمارا سیکرٹری اطلاعات تھا لہٰذا آس پاس کی خبر رکھنا اور دوستوں کو سنانا بھی اسی ریڈیو کا کام تھا۔ اسلم بامسمہ اسلم ریڈیو!!
مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہی بولتا تھا ۔ جہاں نہ بولنا ہوتا وہاں وہ آٹھ آٹھ گھنٹے خاموش بیٹھ کر سن رہا ہوتا۔ اس کی مادری ز بان تو ایبٹ آبادی ہزارہ تھی، مگروہ پنجابی اور اردوبھی بہت اچھی بولتا لکھتا تھا۔
اسلم اعوان کا ایک بیٹا فوج میں تھا،جس کا بعد میں انتقال ہوگیا ۔اولادمیں بس ایک بچی تھی ۔ وہ خود لاہور کے گڑھی شاہو میں رہتا تھا ۔ رہتا بھی کیا ہوگا، دس بجے رات کوگھر چلا جاتا اور صبح نو بجے پھر پارٹی دفتر پہنچ جاتا اور سارا دن یہیں سیاسی کام کرتا۔
محمد اسلم اعوان ضلع ہزارہ کی تحصیل ایبٹ آباد کے ایک گاؤں نور منگ میں قائم خان نامی ایک کسان کے ہاں جون1930ء میں پیدا ہوا۔ اس کے اہل خانہ کا بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ لہٰذا تعلیم گئی بھاڑ میں،وہ روزگار کی تلاش میں محنت مزدوری کرنے کے لیے اس گاؤں سے نکل کر کوئٹہ چلاآیا جہاں اس کا ما موں ملازم تھا۔کچھ عرصہ کوئٹہ رہنے کے بعد دونوں لاہور چلے گئے۔ پندرہ سالہ یہ نوجوان ریلوے کے ایک ٹرین ایگزامینر کے پاس گھریلو ملازم ہوگیا۔ جہاں پہلے اسے3روپے جبکہ بعد میں5ر وپے ماہوار تنخواہ کے ساتھ کھانا وغیرہ بھی ملتا رہا۔(وغیرہ کا مطلب ہے پرانے کپڑے جوتے وغیرہ)۔اس افسر نے اسے ریلوے ورکشاپس مغلپورہ میں اپرنٹس کے طور پر بھی ملازم کروادیا ۔ ساتھ ہی وہ اس کے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے اس کے پاس رہنے لگا تھا۔اس وقت ریلوے میں اس کی تنخواہ22روپے ماہوار تھی۔ ورکشاپ میں سارا دن کام کرنے کے علاوہ صبح4بجے اٹھ کر اسے وہاں گھر کا کام بھی کرنا پڑتا تھا اور شام کو واپسی پر بھی گھر کا سارا کام کرنا ضروری ہوتا تھا۔
جس وقت ریلوے ورکرز ٹریڈ یونین تشکیل دی گئی تو وہ اس یونین کا باقاعدہ ممبر بن کر جوش و خروش کے ساتھ کام کرنے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد جب 1948ء کی کامیاب ہڑتال کے نتیجے میں مقرر کیے گئے ’’ مرکزی پے کمیشن‘‘ کی رپورٹ شائع کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کی تحریک شروع ہوئی تو اس کے لئے1948 ء میں ریلوے ورکرز ٹریڈ یونین کی طرف سے ایک عام ہڑتال کا نوٹس دیا گیا ۔ ’’ پے کمیشن‘‘ کی رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کے بجائے حکومت نے اس یونین کے صدر مرزا محمد اراہیم کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا ۔اور مرزا ابراہیم کے علاوہ اسلم اعوان ’لال خان مرحوم‘ کا مریڈ غلام محمد،شریف نکودری،ابراہیم چھوٹا،لئیق احمد،نثار احمد،لالہ اصغر اور کئی دوسرے سرگرم مزدور کارکنوں کو ملازمت سے برطرف بھی کردیا۔
1948 ہی میں اسلم اعوان اپنے چند دوسرے برطرف ساتھیوں کے ساتھ باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوا اور کل وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ ساتھ ہی ریلوے مزدوروں میں بھی کام کرتا رہا ۔1949ء میں ریلوے حدود میں اس کے داخلہ پر ایک سال کے لیے پابندی لگادی گئی!
بعد ازاں1949ء میں ہی اسے دوبارہ ٹریڈ یونین اور سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل میں بھیج دیا گیا۔ جہاں سے وہ 6ماہ بعد رہا ہوا جبکہ تین ماہ جیل میں اور تین ماہ قلعہ لاہور میں گزارے ۔ 6ماہ کی یہ قید سخت کاٹنے کے بعد وہ پھر سرگرم عمل ہوگیا۔
اسلم اعوان1954 تک کمیونسٹ پارٹی کے ایک جوشیلے اور سرگرم کارکن کی حیثیت سے ٹریڈ یونین خصوصاً ریلوے محاذ پر سرگر مِ عمل رہا ۔اور متعدد بار گرفتاری کے بعد پولیس کی ماریں بھی کھاتا رہا مگر پارٹی فرائض کے سلسلے میں اس کے پاؤں میں کبھی بھی لغزش نہ آئی۔
نومبر1949کو جب ’’انجمن ترقی پسندمصنفین‘‘ کی پہلی کانفرنس اوپن ایئر تھیٹر باغ جناح میں ہوئی تو اسے ناکام بنانے کے لیے کرائے کے ملاّؤں اور مفاد پرست رجعتی اخباروں نے بڑا شور مچایا اور13نومبر کو جب اس کانفرنس کی آخری نشست (مشاعرے والی) بڑے سکون سے جاری تھی تو کرائے کے حکومتی غنڈوں کو بھیج کر اسے درہم برہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ غنڈے کانفرنس کے پنڈال میں داخل ہوکر ادھم مچانا چاہتے تھے مگر اسلم اعوان اور دوسرے کارکنوں نے جن کی اس وقت پنڈال کے آگے ڈیوٹی تھی انہیں اندر نہ داخل ہونے دیا۔ اس پر غنڈوں کی پولیس سے حاصل کی ہوئی لاٹھیاں ان پر برسنے لگیں مگر اسلم اعوان لاٹھیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہ ہلااور کئی دوسرے کارکن بھی غنڈوں کی برستی ہوئی لاٹھیوں سے زخمی ہوگئے مگر انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔۔۔!یہ کام اسلم اعوان زندگی بھر کرتا رہا۔ فرسٹ لائن ڈیفنس!!
1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ اب اسلم اعوان اپنے ساتھیوں سمیت آزاد پاکستان پارٹی میں شامل ہوگیا ۔ اور پھر بہت ساری پارٹیوں کے انضمام سے نیشنل عوامی پارٹی بنی تو ہمارا ریڈیو بھی اُسی میں نغمہ زن رہا۔ اُس پارٹی کی تاریخ دراصل اُس پارٹی کے ورکرز کی تاریخ ہے۔
وہ سی آر اسلم کی راہنمائی میں سوشلسٹ پارٹی میں آگیا اور اس پارٹی میں رہ کر ایک طویل عرصہ تک سرگرمی سے کام کرتا رہا۔یہی پارٹی اس کی زندگی کی بہار تھی۔ وہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا آفس سیکرٹری ہونے کے علاوہ اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور صوبائی کمیٹی کا رکن بھی رہا جبکہ مرکزی اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی ۔ علاوہ ازیں مرکزی پارٹی کے ہفت روز ہ اخبار ’’عوامی جمہوریت‘‘ کا سرکولیشن منیجر اور منتظم کی حیثیت سے بھی کل وقتی طور پر مسلسل لگن سے کام کرتا رہا۔۔۔!لاہور میں سی آر اسلم کے کام میں اسلم اعوان ہمیشہ اس کا دستِ راست رہا ۔
اسلم اعوان کی شادی1952 میں لاہورمیں ہوئی۔ اس کی بیوی کے بطن سے اس کا ایک بیٹا(جو بڑا تھا) اورروبینہ نامی ایک بیٹی پیدا ہوئی مگر اس کی کسمپرسی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے یہ شادی توصیف احمد نامی کامیاب نہ رہی اور دس سال بعد اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہوگئی جس کا اسے ہمیشہ بڑا صدمہ رہا تاہم اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں صرف اس کی غربت ہی آڑے آئی اور اس کی بیوی کا اس میں کوئی قصور نہ تھا اس لیے بیوی کی علیحدگی کے بعد اس کے دونوں بچے اپنے دادا اور دادی کے پاس رہ کر پروان چڑھے۔۔۔!(27)
بہت بہادر شخص تھا وہ‘ بہت استقامت تھی اس کے عمل میں۔ ہر جگہ سوشلزم اور پارٹی کے دفاع
میں ڈٹ جاتا خواہ وہ بحث ہوتی یا باقاعدہ لڑائی ۔ مجھے فلیٹیز ہوٹل لاہور میں وہ تقریب یاد ہے جس پر جماعت اسلامی نے حملہ کردیا تھا ۔ وہ اس بہادری سے لڑا کہ آخر میں میدان کے اندر ایک وہ تھا اور ایک کوئی بلوچ تھا۔ دونوں آخر تک دشمن سے لڑتے رہے۔ بلوچ عقل کی کمی کی وجہ سے بلند آواز میں ، اورآمنے سامنے لڑتے رہنے کی وجہ سے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی تڑوا بیٹھا اور دائیں ابرو پر ٹانکوں کا محتاج ایک زخم بھی لگوا بیٹھا۔اور اپنی گھڑی بھی کھو بیٹھا۔ مگر اسلم اعوان لڑائی میں مجھ سے بہتر داؤ پیچ والانکلا۔ وہ خود کو زخمی ہونے سے بھی بچاتا رہا اور بے جگری سے لڑتا بھی رہا۔بعد میں اس کا تکیہِ کلام سا بن گیا تھا کہ:’’ دشمن کے بھاگنے تک’’الف اور بے‘‘ یعنی ایبٹ آباد اور بلوچستان ڈٹے رہے تھے‘‘۔
اسلم ڈسپلن کا سخت پابندشخص تھا۔دفتر اُس نے خوب سنبھال رکھا تھا۔وہ صبح سویرے دفترآجاتا ۔ پارٹی دفترمیں دائیں پہلو پہ موجود اپنا چھوٹا ساکمرہ جھاڑ و کرتا، اور پھر نسبتاً بڑا سا ہال نماکمرہ صاف کرتا۔ مارکس ، اینگلز اور لینن کی فریم شدہ بڑی بڑی تصاویر کی صفائی سے لے کر کتابوں کتابچوں کی جھاڑپونچھ کرلیتا ۔ اس کے بعد ،آنے جانے والے ساتھیوں کے لیے پینے کے پانی کے کولر میں تازہ پانی بھرتا۔دفتر آنے والے روزانہ دوچار اخبار وں تواپنے معلومات کے لیے بھی پڑھتا اور پھر دوسرے آنے جانے والوں اور خاص کر پارٹی سربراہ سی آر اسلم کی دلچسپی کے ٹکڑوں پرنشان لگاتا،ڈاک دیکھتا اور ایک امتحانی گتہ میں لگے’’چوہا‘‘ میں اڑس لیتا تا کہ سی آر اسلم سہ پہر کو آئے تو اسے یہ خطوط پڑھنے اور اُن کے جواب لکھنے میں آسانی ہو۔
اُس نے پارٹی کے ہفت روزہ ترجمان ’’عوامی جمہوریت ‘‘ کے کام کی بھی نگرانی کرنی ہوتی تھی۔ بڑے بڑے ورقوں پر ملک بھر میں پھیلے اِس کے قارئین کے چھپے ہوئے پتے کاٹ کر علیحدہ کرنا ،اور،گوندکی بڑی بڑی بوتلوں کے ذریعے انہیں اخبار پر چپکا دینا،اسے ترسیل کے لیے ڈاک ٹکٹوں کی خریداری اور انہیں ایک ایک پتے کے ساتھ اخبار پہ چپکا دینا اُس کے کام کے لازمی حصہ تھے۔اسی طرح ڈاک وغیرہ سے اخبار کے لیے آئے ہوئے مضامین کی سی آر اسلم کو فراہمی۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی کا ہفت روزہ اخبار ’’ عوامی جمہوریت‘‘ ۔ساڑھے تین آدمی چلاتے تھے :
۔1۔ سی آر اسلم، جو کہ فنڈ جمع کرتا تھا اور ساراکچھ خود لکھتا تھا، اور کتابت کے بعد اس کی پروف ریڈنگ بھی خودکرتا تھا۔
۔2۔ کاتب (مولوی ابراہیم) ،جو اسے اپنے ذاتی اخبار کی طرح دلچسپی سے لکھتا۔ فربہ ،معمر شخص ،موٹی عینکیں ، چھوٹی نہ شیو کی ہوئی داڑھی ،لکڑی کا ڈبہ سامنے رکھ کر کتابت کرتا رہتا، سامنے بے شمار موٹائیوں کے قلم، بٹر پیپر اور سیاہی ۔
۔3۔ اسلم اعوان جو اِسے کاتب کو پہنچاتا تھا اور وہاں سے پھر پریس لے جاتا۔ اور وہاں سے چھپنے کے بعد پھر دفتر لاتا ۔ پتے لگاتا، ٹکٹیں چسپاں کرتا اور پھر ڈاکخانے میں ڈال آتا۔۔۔۔۔۔۔
ساڑھے تینواں:اسلم ملک۔ پیشے میں تووکیل تھا،مگر وہ ساری عمر ریڈیوکے نائب کے بطور کام کرتارہا۔
مجھے اگر لکھنے کی جانب ملک محمد پناہ ، سی آر اسلم اور بہت بعد میں عبداللہ جان جمالدینی نے راغب کیا تو صحافت کا سارا کام اسلم اعوان نے سکھایا۔ پہلے مضامین کی غلطیاں نکالو، پھر بٹر پیپر پہ کاتب کی کتابت والی غلطیاں درست کرو( اُس زمانے میں کمپیوٹر نہیں ہوتا تھا) ، انار کلی بازار میں موجود پریس لے جاؤ ، وہاں سے چھپنے پراخبار کابنڈل اٹھا کر دفترلاؤ، وہاں فولڈنگ کرو، چھپے ہوئے پتوں کو لمبا آہنی فٹہ رکھ کر کاٹو،گوند سے اخبار پرچسپاں کردو، ٹکٹ لگاؤ‘ڈاکخانہ لے جا کر جمع کردو۔
’’ عوامی جمہوریت‘‘ میں اسلم اعوان اور ملک اسلم کے ساتھ کام کرکے اتنا سیکھا کہ واپسی پر کوئٹہ سے دس برس تک ’’ نوکیں دور‘‘ اور اب 1997 سے مسلسل ماہنامہ ’’ سنگت‘‘ چلاتے رہنے میں کم از کم ٹکنیکی مسئلہ نہیں ہوتا۔
پھر اُس کی ایک اچھی عادت بعد میں، میں نے بھی اپنائی ۔ وہ یہ کہ وہ پارٹی ہفت روزہ کے سال بہ سال کی فائلیں بنا کر انھیں جلد کرواتا ، پمفلٹ اور پوسٹرز کا ریکارڈ رکھنا اس کے علاوہ تھے۔
وہ ان سارے کاموں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے چائے کاآرڈر دینے تک بار بارتہہ خانے کی سیڑھیاں چڑ ھ چڑھ کر خودباہرچھپڑ والے ہوٹل تک چلاجاتا۔ وہ شخص بغیر کسی سینیارٹی شاونزم کے ہر کام خود کرتا تھا ۔لگتا تھا جیسے وہ اپنی بزرگ سنی سے لاعلم ہو۔
ریڈیو،کوبلا مبالغہ اس پورے خطے میں انقلابی تحریک کا آفس سیکرٹری کہاجاسکتا ہے ۔ وہ اِس دفتر اور اس کے کاموں سے اس قدر آشنا ہوچکا تھا کہ اب یہ اسے ’’ ذاتی‘‘ چیزیں لگتی تھیں۔ اس معاملے میں وہ نہ ڈیموکریسی مانتا تھا اور نہ سنٹرل ازم ۔لگتا تھا کہ اسلم اعوان ہی پارٹی تھا اور پارٹی ہی اسلم اعوان ۔ یہی دفتر اُس کا گھر تھا، یہی ہول ٹائمری اسے روٹی روزی دیتی تھی۔( کیا ہول ٹائمری ! بس سی آر اسلم کہیں سے روٹی پانی کا انتظام کرلیا کرتا) ۔
اورکتنا سخت مزاج تھا وہ شخص ۔میری اس سے مکمل بے تکلفی تھی۔ جب وہ غصہ ہوتا تھا اور ہم دونوں اکیلے ہوتے تو میں اس سے کہہ دیتا ’’ تم بہت بددماغ ہو۔ اور ہاں، رعایت کررہا ہوں’’بد‘‘ کی جگہ پر چوپائے کا نام نہیں استعمال کررہا۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ تم ہو’’ خردماغ ‘‘۔۔۔ قہقہہ لگا کر اُس وقت تک خوش رہتا جب تک کہ دوبارہ کوئی اس کی چیزوں کی ترتیب کو بگاڑنہ لیتا ، یا پارٹی لائن پر تنقید کرتا۔ ایسا سخت کہ اُسے پارٹی کا آفس سیکرٹری لگانا ہی نہیں چاہیے تھا۔یکدم مِس فٹ۔ ذرا سا ایش ٹرے اِدھر اُدھر ہوجاتا یا اخبار مقررہ جگہ سے ہٹالیا جاتا تووہ ڈاکٹر خدائیداد بن جاتا۔باقاعدہ اونچی اونچی آواز میں جھگڑنے لگتا یہ دیکھے بغیر کہ کوئی مہمان بیٹھا ہے،یا کوئی ’’معزز‘‘ آیا ہواہے۔۔۔۔۔۔
اسلم اعوان پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا ممبر تھا۔ بڈھا، پرانا، سینئر آدمی !۔ وہ سنٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں بالکل بھی خاموش نہ رہتا ۔کمال شخص تھا، اور کمال تھی اُس کی ڈیوٹی۔ وہ گذشتہ اجلاس کے بعد سے پارٹی آفس میں تودفتر میں آنے جانے والے ساتھیوں کی طرف سے پارٹی پر ہر تنقید کا دفاع کرتا تھا، ہر سوال کا جواب دیتا تھا۔مگر جو تنقید اور سوال جینوئن ہوتا ، اُسے یہاں اب مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کرتا ۔ اُس کا انداز سفارتخانوں کے استری شدہ دہن وزبان والا بالکل نہیں ہوتا۔ وہ سر ، ہاتھ، بازو، الغرض پورا جسم پھلا ہلا کر بات کرتا۔ اونچی آواز میں۔ سخت فقروں میں، اکھڑ انداز میں، مگر دلائل کے ساتھ۔ اُس کی بات چونکہ ورکرز کی آواز ہوتی تھی اور عملی اہمیت رکھتی تھی، اس لیے مانی بھی جاتی تھی۔ یوں وہ پارٹی ورکرز کے احساسات کی زیادہ سے زیادہ ترجمانی کرنے والے اشخاص میں سے ہوتا تھا۔ بڑھ چڑھ کر بحث میں حصہ لیتا ، فیصلہ سازی میں آسانیاں پیدا کرتا۔
اُس زمانے کی ( اور بہت اچھی) تربیت اور پارٹی کلچر کے عین مطابق اسلم ریڈیو ذاتی تشہیر کے ہر امکان سے دور بھاگتاتھا۔ وہ کبھی خود ستائش اور خود پرستش کی جان لیوا بیماری میں مبتلا نہ رہا۔ وہ پارٹی کانفرنسوں اور کسان کانفرنسوں کی ساری تیاریاں کرنے میں خوب خوب جی لگاتا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک کرنے کے بعد وہ کیمروں، انٹرویوؤں اور خود نمائیوں سے روپوش ہوجاتا۔(ہمیں پیروی کرنے کو قدرت نے کیا کیا انسان عطاکر رکھے ہیں!)۔
عجائبات میں شامل اس شخص کا بہت سے لوگوں نے انٹرویو کرنا چاہا۔ بالخصوص مزدوروں یا سوشلزم پہ روٹی روزی کمانے والے این جی او والوں نے ۔ مگر وہ اُن سے اتنا دور بھاگتا جتنا ہندوگائے کے گوشت سے ۔ اوراگر پھنستا بھی تو اپنی ذات پہ بات نہ کرتا، تحریک کی تاریخ پہ ہی بولتا تھا۔
اسلم ریڈیو میں یہ عجیب خاصیت تھی کہ وہ پارٹی کے عام ورکروں سے بہت پیار کرتا تھا۔بچھ بچھ جاتا اُن کی خدمت میں۔لیکن جینوئن اور غیر جینوئن کی اُسے زبردست تمیز تھی۔ وہ اپنی روح کا چہرہ بگاڑ بگاڑ کرچکنے چہروں ، چپڑی باتوں اور چرپ جیبوں پہ پھٹکار بھیجتا تھا۔ علمیت جھاڑنے والا اُسے زہر لگتا تھا۔ میرا دعوی ہے کہ اس نے کسی ’’ خود تو صیف ‘‘ شخص سے دوستی نہ کی تھی۔
اسلم اعوان دفتر میں بد تمیز باتیں کبھی نہ کرنے دیتا ۔ وہ لبرلزم کے دشمنوں کا تو سپہ سالار تھا۔ ہر طرح کی عریانیت کے کپڑے اتارتا تھا۔ ’’نہ ڈسپلنڈ‘‘ مارکسسٹ کو وہ کافر قرار دیتا تھا۔
اسلم ریڈیو، پاکستان میں موجود قومیتوں کے حقوق کے علمبرداروں میں سے تھا۔لگتا تھا جیسے پورے مارکسزم کے اندر یہی عنوان اُس کا پسندیدہ عنوان ہو۔ جھپٹتا تھا اس موضوع پہ۔ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیتا ، اُس کی آواز بلند ہوتی جاتی اور ملک میں قومیتوں کے حقوق کو سلب کرنے،اُن کی ثقافت ومعیشت کو کچل ڈالنے اور وہاں کی شہری آزادیوں کو پامال کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے دیدے باہر آجاتے ۔ وہ اس معاملے پر نظریاتی سے زیادہ حالتِ حاضرہ کے حوالے سے بات کرتا تھا۔ یوں کرتے ہوئے وہ آس پاس موجود پنجابی کا مریڈز پہ طنز کے تیر پھینکتا جاتا جیسے وہ کسی پنجابی پالیسی ساز ادارے کے سربراہ سے مخاطب ہو۔وہ بلوچ عوام کی جمہوری قومی جدوجہد کا زبردست حامی تھا۔ اور بلوچستان پہ فوجی آپریشنوں کا سخت مخالف۔
جناب اسلم اعوان ( ریڈیو) سیاسی ورکروں کے اُس معمر و تجربہ کار جتھے کے آخری نصف درجن اصحاب میں سے تھا جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔ کاش اُس کے تجربے اور بصیرت سے بہت لوگوں کو مستفیض ہونے کا موقع ملتا۔
پھر تو میرا یہ یار بھی بوڑھا ہوتا گیا، اور بڑھتی عمر کے ہاتھوں کام سے جاتا رہا۔۔۔ بڑھاپا۔ جو زندگی بھر کی جھیلی‘ بھگتی ساری بدصورتیوں کی بھی بدصورتی ہوتا ہے۔
پھریوں ہوا کہ اُس کے دل نے شرافت کے ساتھ دھڑکنے سے انکار کر دیا۔ڈاکٹروں نے آپریشن تھیٹر لے جاکر اُس کے رنگ پسٹن بیٹھے دل کو ذبح کیا اور اس کے اندرایک مشین ڈالی جس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ اسلم کے دل کودھڑکواتا رہے۔شرط یہ تھی کہ اس کے اندر کی بیٹری ہر چند برس بعد بدلنی تھی۔مگر وہ نازک مزاج مشین تو اس کے اپنے دل سے بھی زیادہ نخرے باز تھی ۔دل کے برعکس وہ تو یہ نخرہ بھی کرتی تھی کہ اسے الیکٹرانکس کی قربت سے خار تھی۔ اور لاہور میں اسلم اعوان کی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا دفتر ہال روڈ کے ساتھ ہی واقع تھا جہاں الیکٹرانکس ہی کی سینکڑوں دکانیں تھیں۔
بڑھاپے کی کھردری لوریوں اور دل کی آپریشنوی اداؤں کے ہاتھوں اب اس ’’ریڈیو ‘‘کا سپیکر پہلے کی طرح گھن گرج نہیں کرتا تھا، بلکہ اس کا والیوم چھیڑنے سے وہ کھر کھر کرتاتھا ۔ ریڈیو کے ہاتھ پاؤں بے دم تھے اور آنکھوں کا دم بھی موٹی عینک کے طفیل تھا ۔ اب تو وہ ہنستا بھی کم تھا ۔ اور ہنستا بھی کیوں؟ ۔پہلے اُس کا افغانستان چھن گیا ۔ پھر ،بڑا سوویت یونین بقلم خود ریزہ ریزہ ہوا ۔ شکایتیں دور کرنے والا میاں محمود نہ رہا ،فوری مدد والاخواجہ رفیق ہاتھ چھڑا گیا ۔۔۔۔ اور پھر تو اُس کی واحد دیوار گر گئی۔۔۔۔۔۔ اُس کے سر اوپر اُس کا’’ شاک ایبزوربر‘‘سی آر اسلم نہ رہا ۔
جن اشخاص نما’’ چیزوں‘‘ کا وہ پون صدی سے عادی تھا ، موت نے ایک ایک کرکے اُس چھین لیں۔ بلبلوں کی تو پوری ڈار صحرائے عدم کی وسعتوں کو لوٹ چلی ہے۔
اورصرف یہاں تک ہی نہیں،دنیا بھر میں گویا نظریات کے میدانِ جنگ میں مندی چھاگئی۔ اتنی اندھیر کہ محبوبہ اور اس کی سہیلی میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا۔ایسا سکتہ کہ فلسفہ کے دل نے دھڑکنا گویا بندکردیا ہو۔ ہمارا ریڈیو ، عالمی سرمایہ داری نظام کے ریڈیوؤں( بی بی سی ، وی او اے، دوئچے ویلے، آل انڈیا ریڈیو پی ٹی وی) اور ٹیلیویژنوں کے اڑائے گئے گردوغبار میں دبادیا گیا۔ اب جب کہ ’’نصیر خان نوری اور اس کا کلات‘‘ نہ رہے تو، کریملن سے لے کر کلکتہ تک ایلینز(Aliens)کا قبضہ ہوگیا ، کامریڈوں نے ہر ملک میں اپنے لیے معیاری نظریاتی میدان کے بجائے’’ سہل ٹھکانے ‘‘قائم کیے تو پھر تو ملتان سے محمد علی بھارا کا فون تو آنا ہی تھا۔پہلے بوڑھے ملک عطاء اللہ کی موت کی خبرد ینے کے لیے ، اور پانچ دن کے اندر اندر ستیائے ، اٹھیائے اسلم اعوان کی رحلت کا بتانے کے لیے۔