مامی جمالدینی کی اس طرح اچانک موت نے مجھے ماضی کی سمت کھینچ لیا۔مجھے یاد ہے وہ دن جب میں نے پہلی بار مامی کو دیکھا۔ میری شادی کا تیسرا دن تھا جب میں لاڑکانہ سے کوئٹہ آئی اور اس کے دوسرے دن اپنے شوہر کے ساتھ مامی کے گھر پہنچے۔
ایک بوڑھی سی صحت مند خاتون میرے سامنے تھی جو انتہائی شفقت سے ملی اور مجھے اپنی ماں سے دوری کا دکھ تھوڑا دور ہوا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کے بعد مامی نے مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور کہا کہ اکبر ہمارا بیٹا ہے اور اس طرح سے تم ہماری بہو ۔اور پھر مجھے وہاں پر دوپہر کا کھانا کھلایا جو میں نے مامی کے ساتھ کھایا اور پھر اس نے کہا کہ ہمارے گھر آیا کرو اور نہایت محبت وملنساری سے مجھے رخصت کیا اور ساتھ ہی پہلی بار گھر آنے پر مجھے مامی نے ایک خوبصورت ساجوڑا بھی دیا وہ اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔
پھر میں وہاں آنے جانے لگی اور مامی سے ممتا کی شفقت جھلکنے لگتی۔ بلکل اپنی اولاد کی طرح۔ او رگھر کا ہر فرد شفقت سے پیش آتا ۔ مامی مجھ سے اردو میں بولتی اور اس طرح مجھے ایک بیٹی ہوئی تو اس کے ساتھ جب مامی کے ہاں گئی تو مجھ سے بڑھ کر میری بیٹی سے پیار کرتی اور ہم جب بھی جاتے تو بڑی خوش ہوتی کہ ’’سلطانہ ‘‘ آئی ہے ۔ مہر سلطانہ ۔اکبر ساسولی کی بیٹی اور پھر میری بیٹی سے کھیلتی ۔
مجھے یاد ہے وہ دن جب مامی بیمار تھی او ر اسے کھانسی کی شکایت تھی۔ جب بھی مامی کھانستی تو میری بیٹی مامی کی نقل اتارتی اور کھانستی ۔میں اپنی بیٹی پر غصہ کرتی تو مامی مجھے روک دیتی کہ ’’مت کہو بچی ہے ۔ بچے تو اس طرح کرتے ہیں۔ اور میری بیٹی تھی کہ رکنے کانام نہ لیتی جب بھی مامی کھانستی وہ بھی جواب میں کھانستی۔
ایک دن میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ مامی گھر میں گری ہیں اور ان کے پاؤں میں فریکچر آگیا ہے۔ میں جب وہاں گئی تو مامی کافی کمزور نظر آرہی تھیں جس کا مجھے دکھ ہوا۔ ان سے حال حوال کیا تو مامی بڑی تکلیف میں تھی اور کہتی تھی ’’دعاکرو صحیح ہوجاؤں‘‘
مامی پانچ وقت کی نمازی تھی۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی جسے وہ پھیرتے نظر آتی اور رمضان کے روزے بھی پابندی سے رکھتیں۔ بابرکت چہرے کی مالک مامی کی موت کی خبر بھی افسردہ کردینے والی تھی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ ماما جمالدینی کی وفات کے چند گھنٹوں کے اندر اندر مامی بھی ان کی شریک راہ بن چکی ہیں۔ مجھے بلکل یقین تھا کہ یہ مامی تھی ہی اس طرح وہ کبھی اپنے ہمسفر کو اکیلے نہیں رہنے دیتی تھیں نہ اس دنیا میں نہ اُس دنیا میں۔
مامی کی فاتحہ کرنے گئی تو بڑا دکھ تھا۔ میری ماں جب اس دنیا سے گئی اور اس کے بعد جب میں مامی کے پاس گئی تو انہوں نے ماں کی شفقت سے نوازا اور درد کی شدت کو کچھ راحت ملی۔ مگر آج پھر سے میری ماں فوت ہوگئی آج میں پھر سے یتیم ہوگئی۔ مامی تمہاری محبت شاید اب مجھے نہ مل سکے مگر تم میرے خوابوں ، خیالوں، سوچوں اور جذبوں میں زندہ ہو ۔ تمہاری جیسی مہربان ماں کبھی نہیں مرسکتی راحت و آرام سے وہاں عمر گزارو۔ میری مامی سدا خوش رہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے