زندگی تیری بسر گاہ کے ڈھب کھولتے ہیں
روز دروازہ زندانِ سبب کھولتے ہیں
ساعتِ صوت و صدا پر یہ قناعت کیسی
میری خاموشی کے لمحات بھی لب کھولتے ہیں
جوہرِ آئنہ پہ زنگ کے آنے سے کھلا
وہ کوئی بندِ قبا سامنے کب کھولتے ہیں
ہم بطِ مے کو اڑاتے ہیں بہ حسبِ قانون
اِس پرندے کو سرِ عرصہ شب کھولتے ہیں
فرسِ وحشتِ کم یاب سے آئے ہوئے ہم
دشتِ نایاب میں اک طرزِ ادب کھولتے ہیں
ہم نہیں کھولتے ہرگز کہیں بھولے سے بھی
اے غمِ یار تجھے جشنِ طرب کھولتے ہیں
دھوپ آ جاتی ہے جب پیاس کے چہرے پہ کبھی
سایہْ زلفِ نگارانِ عنب کھولتے ہیں
گردشِ وقت سے ہی میرے قبیلے کے لوگ
مورچے کھولتے ہیں اور غضب کھولتے ہیں
خاکِ مقتل سے بنا لیتے ہیں اک راستہ ہم
آبِ شمشیر کے زخموں سے مطب کھولتے ہیں
جب زمیں پوچھتی ہے اپنے لہو کا مطلب
آسماں رازِ شفق جتنے ہیں سب کھولتے ہیں
میرا فن کھولتا ہے مجھ کو زمانے پہ یوں ہی
آئنے جیسے کہ تصویرِ حلب کھولتے ہیں
قید رکھتے ہی نہیں اپنی سخن بیتوں میں
جب بھی ہم چاہتے ہیں بابِ عجب کھولتے ہیں