کوئی وحشت نہیں سمندر سے
میں توخود ہٹ گیا ہوں منظر سے
گو مکمّل دکھائی دیتا ہوں
مجھکو غم کھا گیا ہے اندر سے
مِرے زخموں پہ ہائے ہر کوئی!
آج مرہم لگائے خنجر سے
میرا سویا نصیب جاگ اٹھا
جب سے تو مل گیا مقدر سے
شیشہء دل بہت ہی نازک تھا
ہائے ٹکرا گیا وہ پتھر سے
جب دلیلیں نہ دے سکا وہ بھی
لوگ اْٹھتے گئے برابر سے
عمر تو خواب دیکھنے میں کٹی
اور پھر آ لگا وہ بستر سے
ایک دھڑکا سا ہے لگا نعمان
کوئی تو جھانکتا ہے باہر سے