بیتے خواب کی عادی آنکھیں، کون انہیں سمجھائے
ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے… جیسے تم ہو آئے

ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے
جل جائے گی موم کی گڑیا!!! دنیا دھوپ سرائے

شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے

ہر اک دھڑکن، درد کی گہری ٹھیس میں ڈھل جاتی ہے
رات گئے جب یاد کا پنچھی اپنے پر پھیلائے

اندر ایسا حبس تھا، میں نے کھول دیا دروازہ
جس کو دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے

کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے؟ بولو!!! ۔
یہ تو اس کی دین ہے، جس کو چاہے وہ مہکائے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے