میں دریا ہوں مگر دونوں طرف ساحل ہے تنہائی
تلا طم خیز موجوں میں مری شامل ہے تنہائی
محبت ہو تو تنہائی میں بھی اک کیف ہوتا ہے
تمناؤں کی نغمہ آفریں محفل ہے تنہائی
بہت دن وقت کی ہنگامہ آرائی میں گزرے ہیں
ْ ْ انھیں گزرے ہوئے ایّام کا حاصل ہے تنہائی
ہجوم ِ زیست سے دوری نے یہ ماحول بخشا ہے
اکیلی میں 249 مرا کمرا ہے اور قاتل ہے تنہائی
مرے ہر کام کی مجھ کو وہی تحریک دیتی ہے
اگرچہ دیکھنے میں کس قدر مشکل ہے تنہائی
اسی نے تو تخّیل کو مرے پرواز بخشی ہے
خدا کا شکر ہے جو اب کسی قابل ہے تنہائی
محبت کی شعاعوں سے توانائی جو ملتی ہے
ْْ ْ اسی رنگینی ءِ مفہوم میں داخل ہے تنہائی
خدا حسرت زدہ دل کی تمناؤں سے واقف ہے
دعائیں روز و شب کرتی ہوئی سائل ہے تنہائی
کسی کی یاد ہے دل میں ابھی تک انجمن آرا
سبیلہ ؔ کون سمجھے گا کہ میرا دل ہے تنہائی