سامنے آئینہ رکھا ہوا تھا
بات کرنے کا حوصلہ ہوا تھا

میں نے دریا سے گفت گو کی تھی
اور میں رمز آشنا ہوا تھا

اْس گھڑی زندگی ملی تھی مجھے
جس گھڑی تجھ سے رابطہ ہوا تھا

زندگی اک سرائے خانہ ہے
کسی درویش سے سنا ہوا تھا

منتظر تھا کسی پری کا وہ
باغ میں پھول جو کھلا ہوا تھا

میری ہمت کی داد دو کہ مرا
پاگلوں سے مکالمہ ہوا تھا

سب مگن تھے نگار خانے میں
اپنا اپنا نشہ چڑھا ہوا تھا

آنے والے سے یہ کہا میں نے
جانے والے کا دل دکھا ہوا تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے