اس لیے بھی اجاڑ ہے دنیا
کائناتی بگاڑ ہے دنیا
ایک درویش اپنی مستی میں
کہہ رہا تھا کباڑ ہے دنیا
سر جو ہو جاے تو یہ رائی ہے
سر نہ ہو تو پہاڑ ہے دنیا
ہست دیتی ہے دستکیں اس پر
نیستی کا کواڑ ہے دنیا
دیکھتا ہوں میں اس سے عالم کو
دیکھتا ہوں کہ آڑ ہے دنیا
رہگزارِعدم تحفظ پر
اب حفاظت کی باڑ ہے دنیا
کون رہ پائے تجھ خرابے میں
کس قدر مار دھاڑ ہے دنیا
میرے اور اس کے درمیاں آزر
اک مکمل دراڑ ہے دنیا