اس لیے بھی اجاڑ ہے دنیا
کائناتی بگاڑ ہے دنیا

ایک درویش اپنی مستی میں
کہہ رہا تھا کباڑ ہے دنیا

سر جو ہو جاے تو یہ رائی ہے
سر نہ ہو تو پہاڑ ہے دنیا

ہست دیتی ہے دستکیں اس پر
نیستی کا کواڑ ہے دنیا

دیکھتا ہوں میں اس سے عالم کو
دیکھتا ہوں کہ آڑ ہے دنیا

رہگزارِعدم تحفظ پر
اب حفاظت کی باڑ ہے دنیا

کون رہ پائے تجھ خرابے میں
کس قدر مار دھاڑ ہے دنیا

میرے اور اس کے درمیاں آزر
اک مکمل دراڑ ہے دنیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے