درد کی اِس شدت میں شریانوں کی خیر
یادیں۔۔۔ اور یادیں بھی اْن شاموں کی۔۔۔ خیر !۔

کسی بہانے اْس کا فون تو آیا ہے
شہر میں اْڑنے والی افواہوں کی خیر

لوٹ آنے کی ویسے کوئی شرط نہ تھی
پھر بھی وقت پہ آجانے والوں کی خیر

خیر و شر سے ہٹ کر بھی اک دنیا ہے
اْس دنیا کے کھیتوں کھلیانوں کی خیر

میں نے اِن سے ہٹ کر راہ نکالی ہے
رستہ روکنے والی دیواروں کی خیر

ڈھیرمحبت کرنے والوں کے صدقے
مٹھی بھر نفرت کرنے والوں کی خیر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے