سمولنی سراپا چراغاں تھا۔ پرجوش لوگوں کے گروہ تیزی سے آگے پیچھے آجارہے تھے۔ یوں تو عمارت کے ہر حصے میں جوش و خروش دکھائی دیتا تھا لیکن لوگوں کا ایک جم غفیر سب سے زیادہ بے صبری اور تیزی سے اوپر کی منزل کی طرف رواں دواں تھا جہاں فوجی انقلابی کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا۔ باہر کے کمرے میں تھکی ہاری لڑکیاں بہادری اور ہمت کے ساتھ لوگوں کے اژدھام سے نمٹ رہی تھیں جو مختلف وضاحتیں اور ہدایات حاصل کرنے،یا شکایتوں اور درخواستوں کے سلسلے میں وہاں آئے تھے۔
اگر آپ ایک بار اس ہجوم میں گھر جائیں تو آپ احکامات اور ہدایتیں وصول کرنے والے کئی پر جوش سرخ چہرے اور پھیلائے ہوئے ہاتھ دیکھ سکیں گے۔ موقع پر ہی ہدایات اور اپائنٹمنٹ دئیے جاتے تھے۔ وہیں کھڑے کھڑے اشد ضروری ہدایات ٹائپسٹوں کو لکھائی جاتی تھیں جنکی مشینوں کی کھٹ کھٹ ایک لمحہ کو بھی نہ رکتی تھی۔ وہیں ان پر پنسل یا کسی بابو کے قلم سے دستخط ہوتے تھے اور چند لمحوں میں کوئی کام کرنے کا بیحد آرزو مند نوجوان کامریڈ، کارموٹر کو گردن توڑ رفتار سے چلاتے ہوئے اندھیری رات میں غائب ہوجاتا ۔ عقبی کمرے سے کئی کامریڈ میز کے اردگر د بیٹھے ہوئے متواتر چاروں جانب روس کے سرکش شہروں کو احکامات کے ٹیلیگرام روانہ کرتے جارہے تھے۔
مجھے ابھی تک وہ انتھک اور جان لیوا محنت یاد آتی ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ اکتوبر انقلاب کے موقع پر فوجی انقلابی کمیٹی کی سرگرمیاں انسانی قوت کے ختم نہ ہونے والے وہ خزینے تھے جو ایک انقلابی کے دل میں مدفن ہوتے ہیں۔ اور وہ دل کیا کچھ نہیں کرسکتا جسے انقلاب کی گھن گرج گرما رہی ہو۔
اسی شام سمولنی کے سفید ہال میں سوویتوں کی دوسری کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا ۔ مندوب فتح اور مسرت کے موڈ میں تھے۔ وہاں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ حالانکہ سر ما محل کے چاروں طرف جنگ جاری تھی اور وقفے وقفے سے ہلا ڈالنے والی خبریں موصول ہورہی تھیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ وہاں خوف و ہراس نہیں تھا تو میں بالشکویکوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں اور کانگریس کی فیصلہ کن اکثریت کی بات کررہا ہوں جو وہاں موجود تھی۔ اسکے برعکس کینہ پرور، سٹھیایا ہوا،اور پریشان ، دائیں بازوں کا ’’سوشلسٹ‘‘ عنصر خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔
جب بالآخر اجلاس کی کاروائی شروع ہوگئی تو کانگریس کا موڈ بالکل واضح ہوگیا۔ بالشویکوں کی تقریروں کا والہانہ استقبال کیا جانے لگا۔ بہادر ملاحوں کی تقریریں توصیف و تعریف کے ساتھ سنی جارہی تھیں جو کہ سرما محل کے اردگرد کی لڑائی کا حال سنا نے کے لئے آئے تھے۔ جب بہت دیر سے انتظار ہونے والی یہ خبر پہنچی کہ سرما محل پر بالآخر سوویتوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور سرمایہ دار وزیروں کو گرفتار کرلیا گیا تو نہ ختم ہونے والی تالیوں نے آسمان سرپہ اٹھالیا۔ اسی دوران ایک منشویک لیفٹیننٹ کوچنؔ ، جس نے اب تک فوجی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا تھا تقریر کرنے کھڑا ہوگیا۔ اس نے دھمکی دی کہ وہ محاذ سے اپنی فوجیں فوری طور پر پیٹرو گراڈ لائے گا۔ اس نے پہلی،دوسری ،تیسری اور اسی طرح یکے بعد دیگرے بارہویں فوجی ڈویژن تک کی طرف سے سوویت اقتدار کے خلاف قراردادیں پڑھ کر سنائیں، اورپیٹرو گراڈ کو اس کی اس نوعیت کی مہم جوئی کی جرات کرنے پربلا واسطہ دھمکی دے کر اپنی تقریر ختم کردی۔
اسکے الفاظ کسی کو خوفزدہ نہ کرسکے۔اور نہ ہی کوئی ان اعلانات سے ڈر گیا کہ سارے کسان ہمارے خلاف ہوجائیں گے اور ہمیں نگل لیں گے۔
لینن خوش تھااور مسلسل کام کرتا رہا۔ وہ دور ایک کونے میں نئی حکومت کے وہ فرماں لکھ رہا تھا جو آج ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں اور جو ہمارے دور کی تاریخ کے مشہور ترین صفحات میں شامل ہونے والے تھے۔
مجھے میری یادداشتوں کی ناکافی سطروں میں اس بات کا اضافہ کرنے دیجئے کہ عوامی کمیساروں(وزیروں) کی پہلی کونسل(کابینہ) کس طرح وجود میں آئی۔ یہ سمولنی کے ایک چھوٹے سے کمر ے میں تشکیل دی گئی جہاں ہرشخص ایسی کرسی پر بیٹھا تھا جسے اس پہ پھینکے ہوئے کوٹ اور ٹوپیوں نے چھپا رکھا تھا ۔ ہم اس وقت از سر نو پیدا کردہ روس کے لیڈر منتخب کررہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ انتخاب بے ڈھنگا سا ہے اور مجھے ڈر تھا کہ جن لوگوں کو ہم نے منتخب کیا وہ مختلف امور میں تربیت یافتہ نہ تھے ۔ وہ اتنے گھمبیر مسائل کو حل نہ کرسکیں گے۔ لینن نے برہمی سے مگر ساتھ ساتھ مسکراتے ہوئے مجھے ایک طرف آنے کا اشارہ کیا۔
’’ یہ انتظام وقتی ہے‘‘ اس نے کہا’’ بعد میں ہم دیکھیں گے۔ ہمیں تمام محکموں کے لئے ذمہ دار لوگ چاہئیں۔ اگر یہ لوگ نا مناسب لگے تو ہم بعد میں انہیں بدل دیں گے‘‘۔
وہ کس قدر درست تھا۔ بلا شبہ کچھ لوگوں کو تبدیل کردیا گیا ۔ باقی اپنے عہدوں پر برقرار رہے اور ان میں کتنے ایسے تھے جنہوں نے گوکہ ابتدا میں ہچکچاتے ہوئے کام شروع کیا مگر بعد میں خود کو متعینہ فرائض کی انجام دہی کا اہل ثابت کیا۔ بلا شبہ کچھ لوگ( حتیٰ کہ کچھ ایسے لوگ بھی جنہوں نے بغاوت میں حصہ لیا اور جو محض تماشائی نہیں بنے رہے) ناقابلِ حل نظر آنے والے مسائل اور ہلا ڈالنے والی مشکلات کے سامنے چکرانے لگے۔ لینن حیران کن ذہنی سکون کے ساتھ مسائل کا مطالعہ کرتا اور انہیں اس طرح سنبھالتا جس طرح ایک تجربہ کار پائلٹ ایک دیوہیکل مسافر جہاز کو چلاتا ہے۔