پربتوں سے پرے
لال گولہ گرا
اک دھماکہ ہوا
سرمئی دھول کا اک بگولہ اڑا
چپ کی چادر تنی
کوئی کالک کی بوری فضا میں اچانک الٹ دی گئی
خوف کی ہوک سے
سہمی سہمی سی چڑیا ہمکنے لگی
اپنی ماں کے پروں میں سمٹنے لگی

ایک داسی اداسی سے پھر بھر گئی
اپنے سایے سے ڈر کر لرزنے لگی
کانپتے ہاتھ سے گھر کے آنگن میں کھونٹے سے لٹکی ہوئی لالٹینوں کی لو کو جگانے لگی
بڑبڑانے لگی
وہ کہاں رہ گیا اب تک آیا نہیں
خامشی چھپ کے کیکر کے پتوں میں کچھ سرسرانے لگی
سرخ ہیبت گھروں کی چھتوں سے لپٹ سی گئی
پھر ہوا سر پھری
گھر کی کنڈی سے جیسے چمٹ ہی گئی
ملگجی جھیل میں
ایک کشتی ابھی
پانیوں میں کھڑی
تھرتھری جھرجھری
ختم ہوتی نہیں
ناخدا تھک گیا
پانی رکتا نہیں
اک خدا ہے جو سورج لیے گود میں
شام کے آنے جانے سے ڈرتا نہیں
کشتیاں کھیتے کھیتے بھی تھکتا نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے