اکتوبر 2017ء
آفس سے آئی تو ایک خوبصورت سے سرِ ورق کے ساتھ اکتوبر کا سنگت ملا ۔ جلدی جلدی صفحات پلٹنے لگی اور کچھ ہی دیر باقاعدہ سنگت پڑھنے کے لئے بیٹھی صفحہ جو پلٹا تو ’ ا یک ہی سیاسی پارٹی؟ ارے نہیں ایک ہی سیاسی پارٹی کہا ں بھئی بے شمار پارٹیاں ۔ لیکن سب کی سب دائیں بازو کی۔ دانشور ہوں یا ٹی وی اینکر ،سب کے سب دائیں بازو کے اجارہ دار۔ لہذا بائیں بازو کے لئے تو ایک سیاسی پارٹی ہوئی نا۔ کہ سب کی منشاء ایک ہے کہ کوئی بنیادی مثبت تبدیلی نہیں لائیں گے۔یہ تھا موضوع ماہتاک سنگت کے ادریئے کا۔
محمد سعید کے مضمون ’ میاں محمود احمد اور ان کے ساتھی‘ استحصالی طبقے کی جدوجہد ایک سی ہوتی ہے۔ پارٹی، اخبار، جیلیں ،۔ لیکن نہیں بھئی اتنا آسان نہیں جتنا میں کہہ گئی۔ اس ساری جدوجہد کا حصہ بننا بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ واقعات وقت کی زنجیر سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور جب کبھی کامیابی عمل میں آتی ہے تو پوری کی پوری زنجیراپنی آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے سو یہ جدوجہد کبھی بے ثمر نہیں رہتی۔ ایک اچھا مضمون تھا لیکن خود میاں صاحب کے بارے میں کچھ تشنگی رہی۔
’ طبقاتی صورتحال‘ لال بخش رند ؛ پاکستان کے طبقاتی نظام کے بارے میں مقالہ کہ یہاں صرف سرمایہ داری، پرولتاری نہیں بلکہ جاگیرداری اور قبائیلی طبقات بھی اب تک ہیں ۔ صنعتی ترقی کی کمی، الگ تھلگ رہنے سے طبقاتی شعور کی کمی، پیداوار کا ناکافی ہونے کی وجہ سے تعصب اور ناخواندگی اور بچوں اور عورتوں کی شمولیت۔ یہ کہ سامراج ہمیشہ اپنے مفاد کے مطابق حکمران رکھتے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی آزادی تو پا گئے لیکن معاشی آزادی کے حصول میں ناکام رہے۔جاگیردار طبقہ صنعتی ترقی کے ساتھ جمہوریت کو بھی پنپنے نہیں دیتا۔
گام گیژ میں سی آر اسلم صاحب کا ایک بہت اچھا مضمون تھا ’ لینن اور بیسویں صدی کا سیاسی شعور ‘ کے نام سے۔لینن جو سوشلزم کا بانی تھا ، اس کے سوشلزم کے بارے میں خیالات، نجی ملکیت کا خاتمہ، کمیونسٹ سماج کی آمد و ترقی کے مراحل، معاشیات اور محنت کش کے مفادات اور یہ کہ سوشلزم تک پہنچنے کے لئے سرمایہ داری نظام سے گزرنا ضروری نہیں جیسے تمام باتوں پر سی آر اسلم صاحب کا تفصیلی مضمون تھا لیکن افسوس یہ ہوا کہ مِس پرنٹ کی وجہ سے مضمون پورا نہیں تھا۔
جمعہ فقیر کے نام سے اکبر ساسولی کا بڑا مزے کا ہلکا پھلکا سا مضمون تھا۔بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح سخت اور خشک مضامین پڑھنے کے بعد جو یہ مضمون پڑھا تو ہم رسالہ آگے پڑھنے کے قابل ہوئے۔
ہمارے بزرگ پروفیسر نادر قمبرانی صاحب کی برسی حال ہی میں گزری۔’ پروفیسر نادر قمبرانی‘ کے نام سے ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو صاحب کا ان کی یاد میں ایک اچھا مضمون تھا۔
ماہتاک سنگت کا اگلا ہی مضمون بابا عبداللہ جان جمالدینی پر تھا ۔ یہ بھی ان کی پہلی برسی موقع پر وحید زہیر صاحب کا ایک مختصر لیکن مزے دار مضمون تھا۔
ایک ذرا سا مختلف مضمون سلمی جیلانی کا آیا جو ’ جارحانہ رویہ ( Bullying ) کے نام سے تھا۔ سکولوں ، کالجوں میں یہ رویہ بچوں پر کس قدر برا اثر ڈالتا ہے جو اس کی پوری بعد کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے اس لئے تمام تعلیمی اداروں میں اس کی روک تھام کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اچھا مضمون تھا۔
حال احوال میں دو رپورٹیں تھیں جن میں ایک ’ مرادانی بام‘ کی تقریبِ رونمائی کے بارے میں جبکہ دوسری سمو راج ونڈ تحریک کے سٹڈی سرکل کی رپورٹ تھی۔
کتاب پچار میں چار تبصرے تھے۔ تین عابدہ رحمان کی تحریریں تھیں جن میں دو ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتابوں پرتبصرے تھے اور تیسرا تبصرہ ستمبر کے ماہتاک کا جائزہ تھا۔ جبکہ ذکر کرنا ہے مجھے چوتھے تبصرے کا جو کہ قاضی فضل الرحمان نے ’ رودادِ ریل‘ کے نام سے لکھا۔ اس تبصرے میں کتاب پر تبصرے کے علاوہ سب کچھ تھا لیکن اس کے باوجود وہ جو کچھ بھی لکھا تھا بہت ہی زیادہ مزیدار تھا جسے پڑھ کر ہشاش بشاش ہو کر ’ْ قصے‘ پڑھنے کے قابل ہوئی۔
’ سینے کا زخم‘ سمیرا کیانی کا قصہ؛ گھریلو تشدد جو ہمارے معاشرے میں عام ہے ، اس کہانی کا موضوع ہے۔ موضوع طاقتور لیکن کہانی کافی حد تک فنی لحاظ سے کمزور رہی۔ بعض جگہوں پر عمر کے لحاظ سے بچے سے کافی بھاری بھرکم باتیں کہلوائیں جبکہ بیوہ نانی کو کہانی میں جوڑنا بھی بلا ضرورت سا لگا۔
غلام نبی مغل کی کہانی جسے ننگر چنا نے سندھی سے ترجمہ کیا ہے ’ ورثہ میں ملنے والی خوشبو اور روشنی‘ کے نام سے؛ اس کہانی میں وہی غربت ہے جو نسل در نسل چلتی رہتی ہے، بھوک جو نسل در نسل چلتی ہے۔ یہی اس افسانے کی کہانی ہے۔ اچھا افسانہ تھا۔
آغا رفیق کاافسانہ ’ نُوراں‘ بھی ننگر چنا ہی نے ترجمہ کیا۔ اس میں بھی وہی پرانا قصہ جو ختم ہی نہیں ہو رہا کہ گھر کی نوکرانیاں وڈیروں، خانوں ، نوابوں اور چودھریوں کی حویلیوں کی اُونچی دیواروں کے پیچھے پائمال ہوتی رہتی ہیں ۔
آدم شیر کا قصہ ’ تضاد‘ کے نام سے تھا۔ جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔
اس ماہ کا سب سے خوبصورت افسانہ میں ’ آدم کا جئی‘ کو کہوں گی جسے جاوید حیات نے لکھاجس میں ایک مزدور چھابڑی لگانے والے کی زندگی کو بہت ہی خوبصورتی سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا لیکن ساتھ ہی دکھ اس بات کا کہ آدم جئی اور اس جیسے دوسرے غریبوں کی قناعت اپنی جگہ لیکن آخر ان کی زندگی کب بدلے گی۔ کیا نسل در نسل وہ چھابڑی لگاتا رہے گااور چند سکوں کے لئے یوں ہی آواز لگاتا رہے گا؛ بیا کاجا اِنت، نودا اِنت، ٹیپ ٹاپ اِنت۔۔۔!
آرکائیوز میں دو مضامین تھے جن میں ایک محمد یوسف علی عزیز مگسی کا مضمون ’ بلوچوں کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سراسیمگی‘ کے نام سے جو بہت اچھا تھا۔
اور دوسرا بلوچستان آل انڈیا بلوچ کانفرنس جو کہ 1932 میں جو ریزولیوشنز 28, 29 اور 30 دسمبر کو پاس ہوئے اس کو تفصیل سے لکھا گیا تھا۔قراردادوں میں تو بے شمار اہم نقاط ہیں لیکن مزے کی بات یہ کہ اس دور میں بھی خون بہا میں لڑکیاں مخالف خاندان کو دینا، لب اور ولور جیسی رسومات کی مذمت کی گئی تھی۔اور تعلیمِ نسواں جیسا اہم مسئلہ جو آج کا بھی اُْتنا ہی بڑا اور اہم مسئلہ ہے ، کو بہت ضروری قرار دیا گیا تھا۔
اس ماہ بھی شاعری خوب رہی ۔ نوشین قمبرانی کی نظم بہت خوبصورت تھی:
کیا خبر ان ابد گھاٹیوں سے پرے
ڈر کے غاروں میں سہمے ہوئے چار۔ پائے کہیں
دورِ وحشت سے تہذیب تک کے بڑے
المیے کے ہوں پھر منتظر۔۔۔؟
اور ان پر برسنے لگیں مہرباں ہو کے
شیطان۔ گروسعتیں
تمثیل کی دونوں نظمیں ’ فرعون زندہ ہیں‘ اور ’ ہو‘ بہت مزے کی تھیں :
سن مست قلندر جوگی قیس
ہے چولا نیلا سرخ سفید
بالوں میں کنکر رات دوپہر
واہ تمثیل۔۔۔ایک خوبصورت ردھم!
بات غزل کی کی جائے تو بھئی ہم قندیل کی غزل کا ذکر کیوں نا کریں ۔ ایک بہت حسین غزل:
آپ بھی ذرا ایک شعر کا مزہ لیں :
دل کے مقبرے میںآج پھر جنون رقصاں ہے
بے خودی کے عالم میں گھومنے لگی ہوں میں
آمنہ ابڑو کی نظم کا ذکر بھی بہت ضروری ہے جو ’ میری مٹی مجھے بلاتی ہے‘ کے عنوان سے ہے؛ایک ٹکڑا سنئے اور سر دھنیئے :
مجھے
اک بار پھر سے
گاؤں کو لوٹ جانا ہے
اک کچا گھر بنانا ہے
اور پھر:
مجھے ان کی خوشبو
اوڑھ کے
سوجانا ہے
مجھے گاؤں لوٹ جانا ہے!
مزیدار ہے مٹی کی خوشبو بھی اور آمنہ صاحبہ کی نظم بھی۔
نعیم رضا بھٹی کی نظم بھی بہت اچھی تھی وہ کہتے ہیں:
شکستہ گھر ہے
دہکتے آنگن میں سن رسیدہ شجر کے پتے بکھر چکے ہیں
پرندگاں جو یہاں چہکنے میں محو رہتے تھے
خامشی کی سلوں کے نیچے دبے پڑے ہیں!
وصاف نے بڑے مزے کی نظم ’ دائر ے میں تجسس بھرے آئینے ‘کہی اور انجیل نے جوں کیٹس کی نظم ’ When i have fear ‘ کامنظوم ترجمہ بہت خوبصورتی سے کیا۔ شاید اس سے خوبصورت ترجمہ ممکن نہ ٰ تھا۔
محبت اور شہرت کی حسیں دنیا کا ہوں حصہ
اور اس دنیا کے ساحل پر کھڑا تنہا
میں اکثر سوچتا ہوں یہ
کہ ’نا ہونے‘ کے دریا میں
میں اک دن ڈوب جاؤں گا!
ثبینہ رفعت کا ذکر نہ کیا جائے یہ کیسے ہو سکتاہے۔ وہ اپنی حسین نظموں’ انتہا‘ اور’ ریاضت ‘کے ساتھ ہمارے ساتھ تھیں :
’ انتہا‘
ہم
اس تعلق کو نہ مانیں
جس تعلق میں
جان نہ نکلے!
اس کے علاوہ بلقیس خان، میر ساگر، خمار میر، عقیل ملک، احمد وقاص،اسامہ میر ، وہاب غنی ، غنی انجم اور رضوان کی شاعری بھی ماہتاک میں شامل تھی۔
اکتوبر کے ماہتاک میں کہیں کہیں املا کی غلطیاں تو تھیں ہی لیکن ایک دو اور جگہ بھی کچھ غلطیاں تھیں اور اس کے علاوہ سی آر اسلم صاحب کا مضمون بھی ادھورا چھپا ۔ لیکن اتنے خوبصورت رسالے میں ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو جا یا کرتی ہیں ۔ کوئی آفت بالکل بھی نہیں آئی ان غلطیوں سے۔