سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی جنرل باڈی کااجلاس 22اکتوبر 2017کو پروفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوا۔ اس کی صدارت سیکریٹری جنرل عابد میر نے کی ۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل ایجنڈہ پیش کیا گیا:
۔1۔سیکریٹری جنرل رپورٹ
۔2۔الیکشن کمیشن رپورٹ
۔3۔نومنتخب کا بینہ کی منظوری
۔4۔دیگر
نظامت کے فرائض ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے انجام دیے ۔ سب سے پہلے عابد میر نے سیکرٹری رپورٹ پڑھی ۔ جو مکمل تو نہیں تھی البتہ اس میں اس کاخاکہ موجود تھا ۔ اس میں دوسالہ کار کردگی کو ظاہر کیا گیا تھا ۔عابد میر نے کہا کہ 2016میں پوہ زانت کی کل نو ماہانہ نشستیں ہوئیں جبکہ 2017میں آٹھ نشستیں ہوئیں۔ مرکزی کمیٹی کے آٹھ اجلاس ہوئے ۔ ضلعی کمیٹی کے چھ اجلاس ہوئے۔ اس دوران خاران میں ماما عبداللہ جان جمالدینی پر ایک سیمینار منعقد ہوا۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی پر نوشکی میں بھی ایک سیمنار منعقد ہوا۔ گوادر بک فیئر میں ایک سیشن سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے ماما عبداللہ جان جمالدینی پر ہوا ، جس میں اس کی فکر ، صحافت اور علم وادب وسیاست کے شعبوں میں خدمات پر مقالات پیش کیے گئے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے اس دوران دیگر ہم خیال ادبی تنظیموں سے دوستی کے معاہدے کیے جس میں بلوچستان ادبی فورم کی تنظیمیں شامل ہیں۔
بلوچی رسم الخط کمیٹی نے بلوچی رسم الخط کو متعین کیا۔ علاوہ ازیں ایجوکیشن کمیٹی نے ایک مسودہ تیار کیا، کارکنوں کے لیے نظریاتی نصاب کی ترتیب بھی عمل میں لائی گئی۔ علاوہ ازیں مئی 2017میں ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اگست 2017میں بزنجو کی صد سالہ تقریبات کے انعقاد میں ایک کانفرنس کی گئی۔
دریں اثنا سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے بین الاقوامی ادب کے تراجم کر کے سنگت تراجم سیریز کے تحت شائع کیے۔ جن میں بلوچی زبان میں بین الاقوامی ادب کی دس تراجم، اردو میں سات ، براہوئی میں دو اور پشتو میں بھی دو تراجم شائع کیے گئے ۔ عشاق کے قافلے سیریز کے تحت 11کتابیں شائع ہوئیں ۔ دیگر کتابوں میں آٹھ کتابیں منظر عام پر آئیں۔اسی طرح کل چالیس کتابوں کی اشاعت ہوئی۔ علاوہ ازیں کچھ کتابیں زیر اشاعت ہیں۔ عابد میر نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اپنی رپورٹ کا اختتام کیا۔
اس کے بعد آغاسرور کو دعوت دی گئی۔ اس نے الیکشن کمیشن رپورٹ پیش کی۔ آغا سرور نے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ایک الیکشن کمیشن مقرر کیا گیا تھا ، جس کا سربراہ وہ منتخب کیا گیا اور اُس کی مدد کے لیے وحید زہیر چنا گیا۔ اس اجلاس میں مرکزی کمیٹی نے مندرجہ ذیل کابینہ کی تجویز پیش کی تھی:
مرکزی سیکریٹری جنرل :پروفیسر ساجد بزدار
ڈپٹی سیکریٹری: جاویداختر
سیکریٹری پوہ زانت : ڈاکٹرعطاء اللہ بزنجو
مرکزی کمیٹی کے ارکان:
۔1۔ڈاکٹر بیرم غوری
۔2۔عابد میر
۔3۔ڈاکٹر عنبرین مینگل
۔4۔کلا خان خروٹی
۔5۔عابدہ رحمن
۔6۔خالد میر
کا بینہ کے کسی عہدے پر چوں کہ کسی نے کاغذات نامزدگی پیش نہیں کیے ۔ لہٰذا جنرل باڈی اجلاس میں اس کی منظوری لی جاتی ہے ۔ جنرل باڈی نے اس نو منتخب کابینہ کی منظوری دے دی اور مبارک باد پر آغا سرور کی رپورٹ اختتام پذیر ہوئی ۔
اس کے بعد نئی منتخب کابینہ کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ساجد بزدار نے اجلاس کی صدارت کی۔اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میرے لیے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا سیکٹری جنرل ہونا باعث صدافتخار ہے ۔ میں نے ایسا کبھی بھی نہیں سوچا تھا۔ ہمیں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے پلیٹ فارم پر متحد ہو کر غربت ، جہالت ، بیماری ، بے روز گاری، طبقاتی تفریق اور دہشت گردی کے عفریتوں کے خلاف قلمی جنگ کرنی ہے ۔ کیوں کہ سنگت وہ واحد تنظیم ہے جو ہر قسم کے نسلی ، لسانی ، گروہی منفی اور طبقاتی امتیاز کے خلاف صف آرا ہے ۔ اس کا قافلہ رواں دواں ہے ، یہ کتاب بینی کی کلچر کو فروغ دے رہی ہے۔ اور آزادی تحریر وتقریر کے لیے سرگرم عمل ہے ۔
جنرل باڈی میں سنگت اکیڈمی آف سائنسزکی نئی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کی تاریخ5نومبر 2017 مقرر کی جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس اجلاس میں مندرجہ ذیل قرار دادوں کی منظوری بھی دی گئی:
۔1۔سنگت کا یہ اجلاس پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران میں جمہوریت اور اس کے اداروں کے استحکام کا مطالبہ کرتا ہے اور غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غیر پارلیمانی عمل کی پرزور مذمت کرتا ہے۔
۔2۔بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی طور پر حل کا متقاضی ہے ۔اجلاس بلوچستان میں جبری کم شدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں اور ماورائے عدالت قتل وغارت کی مذمت کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں سندھ میں بھی ایسے گھناونے عمل کی مذمت کرتا ہے اور ننگر چنا کی رہائی کامطالبہ کرتا ہے ۔
۔3۔خواتین کی کردار کشی اور ہر قسم کی ہراسمنٹ کی مذمت کرتا ہے ۔
۔4۔پاکستانی آئین میں صحت ، تعلیم ، تحفظ جان ومال اور عزت و آبرو کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن ریاست اس سے پہلو ہی کر رہی ہے ۔ ان ریاستی ذمہ داریوں کی عملی یقین دہانی کا مطالبہ کرتا ہے ۔
۔5۔آئین کے مطابق، ہر شہری کو بنیادی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے ۔
اس کے بعد عابدہ رحمن نے ماما عبداللہ جان جمالدینی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک مختصر مگر جامع مضمون پیش کیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔