کتاب : مزدک
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد
صفحا ت : 150
قیمت : 300 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
وہ ایک عالیشان عمارت تھی جہاں میں پہنچی۔اندر داخل ہوئی۔بائیس منزلہ عمارت گو کہ اب کھنڈر لگ رہی تھی لیکن آثار بتا رہے تھے کہ کبھی یہ محل رہا ہوگا۔ میں عمارت کی ایک ایک چیز کو دیکھ کرمحظوظ ہو رہی تھی کہ پہلی منزل پر ہمارا استقبال سپارٹیکس نے کیا ۔وہ سپارٹیکس جس نے ایک عظیم بغاوت سے سلطنتِ روم کو تہہ و بالا کر دیا ۔ اس بغاوت نے غلاموں کے گلے کے طوق ایک جھٹکے سے دُور پھینک دیے اور پاؤں کی زنجیروں کو توڑ کر روم کے آقاؤں کی کمر پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ بلبلااٹھے ۔وہ پیدائشی غلام تھا اور اسے قتل کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ لیکن وہ غلام ذہنی طور پر آزاد انسان تھا، لہٰذا اس نے دوسرے غلاموں اور کسانوں کو منظم کیا اور بغاوت کر دی ۔ گو کہ یہ تحریک بعد میں ناکام ہوئی اوررومن حاکموں نے نشانی کے طور پرچھ ہزار غلاموں کو پہاڑوں کے دامن میں مصلوب کر دیا اور پھر آخر میں سپارٹیکس کو بھی صلیب پر چڑھا یا گیا۔لیکن اسے ناکام نہیں کہیں گے کہ بہت سوں کو اس نے بیدار کر دیا تھا۔
میں اپنے گائیڈ کے ساتھ دوسری منزل کی جانب چل دی ،جہاں انھوں نے میری ملاقات مزدک سے کرائی۔پانچویں صدی عیسوی میں اس کے نام سے ایک بہت بڑی تحریک ابھری تھی۔گائیڈنے بتایا کہ مزدک ایک زرتشتی مولوی تھا ،جنھیں موبد کہا جاتا تھا۔اور یہ کہ اس دور میں سخت طبقاتی نظام تھا۔غربت نسل درنسل چلتی تھی انسان کی تحقیر و تذلیل عام تھی۔سود خوری ، ذخیرہ اندوزی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ایسے میں مزدک نے آواز بلند کی کہ مال و دولت عوام میں تقسیم ہونا چاہیے کیوں تمام انسان خدا نے پیدا کیے ہیں ، پھر انسان حاجت مند کیوں ہو۔انسانی تاریخ کے اس پہلے سوشلسٹ نے انقلاب برپا کر دیا تو جاگیردار اور ملا ملوٹے یہ سب کہاں برداشت کر سکتے تھے، ہوا وہی کہ مزدکیوں کا قتلِ عام ہوا لیکن نظریہ زندہ رہا کہ نظریے کبھی قتل نہیں ہو سکتے۔ یہ مزدکی تحریک پورے تیس سال تک جاری رہی۔
اتنی بڑی شخصیت سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کی خوشی لیے میں اپنے گائیڈ کے ساتھ اگلی منزل کی جانب چل دی ۔جہاں رابرٹ اوون ہمارا منتظر تھاجس نے محنت کے اتحاداور مشین کو انسان کے ماتحت کرنے کا نظریہ یعنی سوشلزم کا نظریہ دیا۔اس نے برطانیہ کی فیکٹری جہاں وہ سپرنٹنڈنٹ تھا، ایک ماڈل کالونی کی شکل دی اور ایک کمیون کا سا نظام وضع کیا۔مزدوروں کے اوقات کار کم مقررکیے اور انھیں منظم کر کے ایک زبردست ٹریڈ یونین بنائی۔
اب ہمارے قدم چوتھی منزل کی طرف بڑھے۔ ادھر ہماری ملاقات ویلہلم لب نخت سے ہوئی۔ لب نخت نے اخبارات میں عوامی مضامین لکھے اور اخبار کا ایڈیٹر بن گیا۔ بغاوت کی وجہ سے وطن بدر ہوا۔ انھی دنوں اینگلز اور مارکس سے ملا۔جرمنی اور فرانس کی جنگ کا وہ مخالف رہا اور دونوں ملکوں کے محنت کشوں کو حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا۔یہ انقلابی اور مارکس کے الفاظ میں ’’وفادار لب نخت‘‘ مزدوروں کے مفاد کے لیے لڑا اور اس نے سوشلسٹ ورکرز پارٹی آف جرمنی بنائی اور الیکشن میں جیت بھی گیا۔
پانچویں منزل پر گئے تو وہاں مارکس کا دوست ویلہلم وولف کھڑا تھا۔ وہ ایک بہت اچھا مصنف تھا۔اور سوشلزم اور اس کے بانیوں سے وفادار رہا۔ مارکس کی کتاب ’ کیپٹل‘ کا انتساب بھی اس خوش قسمت کو وصول ہوا۔
میں اپنے گائیڈ کی ہم قدم تھی اور ہمارا رخ چھٹی منزل کی جانب تھا۔فرڈینا نڈ لاسال، جسے رجعت سے نفرت تھی۔ اس نے فرینچ ریوولوشن میں حصہ لیا۔شہریوں کو شاہی اقتدار کے خلاف ابھارا جس کی پاداش میں جیل کے حوالے ہوا۔ وہ مارکس کی تحریریں پڑھتا چلا گیا اور ایک سوشلسٹ بنتا گیا لیکن پھر بھی وہ فکری طور سے آزاد نہ تھا اور انقلاب کی بجائے ووٹ کے حق کے لیے لڑتا رہا۔
آگسٹ بیبل سے ہم ساتویں منزل پر ملے۔والدین کی وفات کے بعد غمِ روزگار لیے آگسٹ جرمنی اور آسٹریا بھی گھوما اور لپزک میں مزدوری کرتے ہوئے مزدوروں کے قریب ہو گیا ۔ اس نے پمفلٹس لکھنا شروع کیے۔اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی بنائی۔ جیل کاٹی اور جیل میں ہی اس نے ’کسانوں کی لڑائی‘ اور ’ عورت اور سوشلزم‘ لکھی۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف تھا۔
اتنے زبردست بڑے انسانوں سے مل کر اشتیاق بڑھتا چلا گیا اور یہ شوق لیے کہ آٹھویں منزل پر کس سے ملنے والی ہوں ، میں گائیڈ کے ساتھ چل دی۔ ادھر ہماری ملاقات توماسو کمپنیلا سے ہوئی۔ بے شمار کتابوں کا یہ مصنف جاگیرداروں ، پادریوں، حاکموں کے مظالم اور استحصال کے خلاف تھا اور اس کی سزا میں جیل جاتا رہا ۔ جیل کی یہ قید ایک دو سال نہیں بلکہ پورے 27 سال اس کے جیل کی تاریکیوں کی نذر ہو گئے لیکن زندگی کے آخری لمحات تک اس کی جدوجہد جاری رہی۔
اب ہمارا اگلا پڑاؤ نویں منزل پر تھا۔ جین ملیئر نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا۔ فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے جین نے ایک ظالم جاگیردار کے خلاف مہم چلائی ۔ کسانوں کو انقلابی طبقہ سمجھنے والا یہ انسان جائداد کو انسانیت کا دشمن سمجھتا تھا۔وہ کہتا تھا کہ عوام خود ظلم و استحصال سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، وہ مذہب کوریاست اور سیاست سے الگ رکھتا تھا اور اس نے ایک کمیونسٹ معاشرے کا تصور پیش کیا۔
میرا شوق دیکھ کر گائیڈ نے کہا ،آؤ میں آپ کو شاہ عنایت کے ہم عصر سے ملواؤں اور میں ان کے پیچھے ہو لی۔ یہ دسویں منزل تھی جہاں کوئی بیٹھ کر شاید کسی مقدس کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ یہ جیرارڈ ونسٹن تھا۔ یہیں پر ہمیں سبز چائے کے مگ ملے اور ہم ساتھ میں چائے کی چسکیوں سے بھی لطف لیتے رہے۔جیرارڈ نے مقدس صحیفوں کی دوبارہ تشریح کی ،اس نے فرد اور خدا کے بیچ پادری کو غیر ضروری قرار دیا۔جیرارڈ نے اَن پڑھ ہونے کے باوجود بائبل کی مدد سے پمفلٹ لکھنا شروع کیا۔وہ جائداد کی ملکیت کو Level (مساوی)کرنا چاہتا تھا ۔اس لیے خود کو حقیقی لیولرز کہتا تھا۔اس نے بکھنگم شائر میں روشنی کے نام سے بادشاہت اور چرچ کے خلاف کتاب لکھی۔ بے شمار پمفلٹس لکھے۔ جاگیرداروں کو قائل کرنا چاہا کہ وہ ظلم چھوڑ کر جائدادیں غریبوں میں تقسیم کر دیں۔
گیاہویں منزل پر ہم تھامس مور سے ملے جو کہ بہت انسان دوست شخص تھا۔ طبقاتی اور منصفانہ نظام کا مخالف تھا۔ یوٹوپیائی سوشلزم کے بانیوں میں سے تھا۔ نظام قانون پڑھا اور ایک محنتی اور ایماندار جج بن گیا اور غریبوں کا محافظ بن گیا۔اس نے اپنے بچوں خاص طور سے بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ شاہ رچرڈ سوم کی تاریخ ، یوٹوپیا اس کی مشہور کتابیں ہیں۔مور کی تصانیف پروٹسٹنٹ عقیدے کے خلاف تھیں ، لوتھر کی مخالفت میں تھیں اور پوپ اور کیتھولک عقیدے کے حق میں تھیں۔ وہ اپنی تحریروں کی وجہ سے صلیب پر چڑھا۔تین سال لارڈ چانسلر رہ کر استعفیٰ دیا۔اسے غدار قرار دیا گیا اور سزائے موت دی گئی۔
بارہویں منزل پر ہم جس سے ملے، اس کا حلیہ کسی پرنس سے کم نہ تھا ۔ یہ سینٹ سائمن تھا۔ محل میں پلنے والے سائمن کو تین عناصر نے نظام کا باغی بنایا۔ یہ کہ وہ آزاد غور وفکر کرنے والا بندہ تھا اور اپنے استاد جین ڈی الیمبرٹ سے متاثر تھا اور روشن خیالوں کی تحریریں پڑھیں۔چرچ کی وابستگی سے انکاری ہو گیا اور اپنا نام ’سادہ آدمی‘ رکھ لیا۔شاہ پرستوں اور گرجا کی زمین خریدنی شروع کر دی اور اس کے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنا کر ضرورت مند کسانوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا، جس کی پاداش میں جیل چلا گیا۔وہ بے شمار کتابوں کا مصنف تھا۔
اگلی‘ یعنی تیرھویں منزل پر فرانسیسی سوشلسٹ ایڈورڈ ویلنٹ ہمارا منتظر تھا۔یہ انقلابی جرمنی اور فرانس میں مزدور تحریک کے لیڈروں سے ملا اور سائنٹفک سوشلزم پر کتب پڑھیں ۔ جرمنی فرانس کی جنگ میں پیرس کو بچانے والے باغیوں میں سے تھا۔ مفت ، لازمی اور سیکولر تعلیم کی بات کرتا تھا تو ردِانقلاب بپھر کر اس کے خلاف ہو گیا تو وطن بدر ہو گیا اور1880ء میں عام معافی کے اعلان کے بعد وطن لوٹا۔
اگلی منزل چودھویں منزل تھی۔1789ء کے انقلابِ فرانس نے صاحبِ جائداد کو شدید دھچکا دیا۔1793ء میں لیونز شہر میں بغاوت ہوئی جس میں چارلس شامل تھا ۔ بورژوازی سے شدید نفرت کرتا تھا، اس لیے اس نظام کا سخت مخالف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بورژوا سماج اپنے ساتھ بدنظمی، انارکی اور بدترین استحصال لاتا ہے اور یہی نظام عورت کی تذلیل بھی کرتا ہے۔ اپنی فکر کو چارلس فیورئیرنے اپنی تحریروں میں سمویا۔
پندرھویں منزل پر ہمارے لیے ایک دفعہ پھر سبز چائے بھیجی گئی۔ ہم مگ ہاتھ میں لیے فرانس کے انقلابی ، ترقی پسند شخص جین جاریزکی طرف بڑھے۔ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے بعد ترقی پسند اصلاحات چاہتا تھا اور مزدوروں کا نمائندہ رہا۔ تاریخ پر لکھی اپنی کتاب میں کمیونسٹ مینی فیسٹو کا تجزیہ بھی کیا۔ بعد میں جین جاریز قتل ہوا۔
اگلی منزل پر کوئی شخص پشمینہ جیکٹ پہنے ہاتھ میں قلم لیے کھڑا تھا۔ جو حلیے سے فرانسیسی سے لگتا تھا ۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ’ جائداد کیا ہے؟‘ کا مصنف پرودھون ہے۔جو طبقاتی سماج کا مخالف تھا اور اس نظام کو اپنی تحریروں میں بے نقاب کیا ، نجی ملکیت کے خاتمے کی بات کی۔اس کی کتاب ’ غربت کا فلسفہ‘ کے جواب میں مارکس نے تنقید کے طور پر ’ فلسفے کی غربت‘ لکھی۔ملائیت کے خلاف بھی لکھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتابیں لکھیں۔
ہم اگلی منزل کی طرف چل دیے، جہاں باکونن مسکراتا ہو اہمیں ملا۔ باکونن ، ہیگل اور اس کے جدلیا ت کے فلسفے کا پیروکار تھا ۔ مزدور تحریک سے متاثر ہوا۔ روسی بادشاہت اور زرعی غلامی کے خلاف تقریریں کرتا تھا۔ جیل، قلی کیمپ اور جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کتابیں لکھی۔ کچھ غلطیاں بھی ضرور کیں لیکن وہ ایک بڑا انسان تھا۔
اب ہمارا رخ اٹھارویں منزل کی جانب تھا۔ ہر انقلابی کی طرح نکولائی چرنی شیوسکی بھی بادشاہت کا خاتمہ اور ایک سوشلسٹ معاشرہ چاہتا تھا۔ ’کیا کیا جائے؟‘ کا مصنف بھی یہی نکولائی تھا، جس نے اپنی فکر کو مختلف مضامین کی زینت بنایا۔عورتوں کے حقوق کا حامی تھااور ان ’جرائم‘ کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برادشت کیں۔
اب جو ہم نئی منزل پر گئے تووہاں مارکس اور اینگلز کے دوست پیاترلاوروف سے ملاقات ہوئی۔اس نے فوجی امور اور نیچرل سائنس پر مضامین لکھے،شاعری کی، تاریخی خطوط نامی کتاب لکھی۔ انقلابی طلباکے دفاع میں تقریریں کرتا تھا۔ مارکس کی وفات کے بعد اس کی لائبریری میں موجود روسی زبان کی کتب لاوروف کے حصے میں آئیں۔
اتنی منزلیں گھوم کر تھکاوٹ کا احساس ذرا بھی نہیں تھا بلکہ ایسی بڑی شخصیات سے ملاقات نے طبیعت میں تازگی پیدا کی۔ لہٰذا میں اپنے گائیڈ کا ساتھ دیتی ہوئی بیسویں منزل کی اور چل دی۔یہاں نکولائی میخائلوفسکی نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ نکولائی نے بھی کسانوں کی طرف داری اور جاگیرداری کی مخالفت کی۔مختلف رسالوں میں انھی موضوعات پر ان کے مضامین آئے۔ ایک کتاب لکھی اور رسالے روسی خزانہ کا ایڈیٹر بنا۔
اکیسویں منزل پر کوئی شخص بڑی تیزی سے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ قدموں کی چاپ سن کر وہ ایک مسکراہٹ لیے ہماری طرف متوجہ ہوا۔ یہ والٹیر تھا۔اس سے ملے۔ یہ انقلابی بھی بادشاہ، فیوڈلوں اوردرباریوں کے خلاف لکھتا تھااور پادری کی ہر غلاظت سامنے لاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور صرف اسے اپنی ہی ذات پر حکمرانی کا حق پہنچتا ہے۔‘ نظموں ، ناولوں اور مضامین کے ساتھ اس کی 99 کتابیں تھیں۔
اور اب ہم سب سے اوپر والی منزل یعنی بائیسویں منزل پر جا رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر ایک خوش گوار حیرت ہوئی کہ ایک بہت خوب صورت خاتون نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ اور ایک شعر گنگنانے لگی؛
اے پیکرِ ایثار تحقیر کی اس چادر کو جلا ڈال
اس اندھیری رات کو صبح میں بدلنامشکل تو نہیں
مجھے بتایا گیا کہ یہ ایران کی فاطمہ زریں تاج ہیں، جنھوں نے قراۃالعین طاہرہ کا لقب پایا۔ میں نے آگے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا۔ طاہرہ ایک بہت اچھی شاعرہ تو تھیں ہی لیکن ساتھ ہی مرد و عورت کے حقوق میں مساوات کی علم بردار بھی تھیں۔سوچ، شعور اور حصولِ مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ عورتوں کا شعور جگانے کے لیے بیداری کی تحریک چلائی۔ فارسی شاعری کو غزل و شراب سے نکال کر حقیقی مسائل کی طرف لائی۔ ظلم قبول کرنے سے انکار کیا تو گلا گھونٹ کر شہید کر دیا گیا۔
ان بائیس عظیم شخصیات سے ملنے کے بعد میں اپنے گائیڈ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے ساتھ اس عمارت کی چھت پر چلی گئی ۔سامنے کھلا آسمان تھا، کھلی فضا تھی۔۔۔پہلی بار کھلی فضا میں سانس لینے کی اہمیت کا حساس ہوا۔ آزادی کا احساس ہوا، آسمان کی وسعتوں کا احساس ہوا۔
لیکن پھر پتہ چلا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ، اور یہ سفر کا پہلا سنگِ میل ہے، جس کی ابھی تیس منزلیں پار کرنی ہیں۔ میں نے پہلی منزل کا نشاں کتاب ’ مزدک‘ سینے سے لگائی اور محسوس کیا کہ آسمان کی وسعتیں کس قدر بڑھ گئی ہیں، مجھے لگا کہ میرے پَر اُگ آئے ہیں، اور میں آسمان کی وسعتوں میں اُڑ سکتی ہوں۔۔۔
اورمیں سوچتی ہوں جو کتاب انسان کو آزادی اور ذمہ داری کا ایسا احساس دے ، اسے صرف انقلابی نہیں بلکہ ’رہنما کتاب‘ کہنا چاہیے۔