زندگی سر کس اُن کے لیے ہوتی ہے
جن کے پاس ناظرین ہوتے ہیں
طاقچوں میں رکھیں تنہا امیدیں
ہر وقت ٹمٹماتی دھڑکن کی طرح
جل بجھ رہی ہیں
جھلملاتی لَو کے سامعین
ابھی جگمگاتی روشنی چکھنے میں مصروف ہیں
ریگستانوں میں بھاگتے اونٹ
اور دیوار کے اس طرف
بندھے موت کے کنویں کے چکر کاٹ لیں
تو کرتب دکھاتے مسخرے پتھرائی ہوئی آنکھوں
سے اپنے قارئین سے ہمکلام ہوجائیں گے
بنجر زمین میں ہل جوتنے والے
کسان کو یہ کب پتہ ہے
کہ مٹی لیپا ہوا چولھا
سانس کی دھونی اور آنسوؤں
کے ایندھن سے جل رہا ہے!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے