تو مجھے ایک جھلک بھی نہیں دکھلانی کیا؟
صرف موسی پہ عنایت تھی یہ فرمانی کیا؟
میں کسی شخص کہ مرنے پہ بھی غمگین نہیں
خاک اگر خاک میں ملتی ہے تو حیرانی کیا؟
خط میں لکھتے ہو بہت دکھ ہے تمہیں ہجرت کا
یار جب جا ہی چکے ہو تو پشیمانی کیا؟
میری آنکھوں میں ذرا غور سے دیکھ اور بتا
ان سے بڑھ کر ہے بھلا دشت میں ویرانی کیا؟
نہ غمِ یار ہو لاحق نہ غمِ دوراں ہو
آخر اب زیست میں اس قدر بھی آسانی کیا
میری مٹی میں الگ شے ہے کوئی کوزہ گر!
وقتِ تجسیم مری خاک نہیں چھانی کیا؟