چھوٹی سی بچی شبانہ میرے قریبی فلیٹ میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتی ہے۔مجھے اس کے والدین کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا لیکن اتنا ضرور سمجھ رہا تھا کہ اس کے بہن بھائی کم از کم نصف درجن سے بڑھ کر ہوں گے۔شبانہ کی آنکھوں میں غضب کی ذہانت اور سوالات نظر آتے ۔وہ ہمیشہ صاف ستھری ہوتی،لیکن میں نے اسے نئے لباس میں بہت کم دیکھا۔وہ سکول یونی فارم شام تک پہنے رہتی اور شام کو جب سکھر شہر پرسورج آگ کی تپش کم کردیتا تو وہ بھی نہادھوکر ،استری شدہ کپڑے پہنے ،اپارٹمنٹس کمپاؤنڈمیں نظر آتی ۔شبانہ کی عمر یہی کوئی سات آٹھ برس ہوگی۔ میری اس سے کچھ خاص شناسائی بھی نہ تھی اور مجھے ایک معمولی سی لڑکی محسوس ہوتی تھی،ماسوائے اس کی آنکھوں کے۔اس کی آنکھیں ذہانت سے پُر اور سوالوں سے بھری محسوس ہوتی تھیں۔میں جب وہاں سے گزرتا تو وہ کچھ دوری کھڑی ہوجاتی اور میں محسوس کرتا کہ بچی مجھ میں کچھ تلاش کرنا چاہتی ہے۔
ایک دن میں نے ایسی حالت میں اس سے پوچھا،
’’ بے بی! آپ کیا دیکھ رہی ہیں؟‘‘
’’ میں بے بی نہیں ہوں،میرا نام شبانہ ہے۔‘‘
’’ مجھے تو پتہ نہیں ہے۔‘‘
’’ آپ روزانہ آتے ہیں ،لیکن آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں ہے؟‘‘
’’ یہ میری غلطی ہے۔اب یہ بتائیے کہ آپ مجھے روزانہ کیوں دیکھتی ہیں؟‘‘
’’ ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔آپ اس پلازا میں رہتے ہیں،اس لیے آپ میرے انکل ہیں۔کیا انکل کو نہیں دیکھنا چاہیے؟‘‘
’’نہیں،یار! تم بالکل دیکھاکرو۔‘‘
’’ آپ نے انگوٹھی بہت اچھی پہن رکھی ہے۔‘‘
میں نے انگوٹھی کو دیکھا،’’ہاں،میری شادی کی ہے۔‘‘
’’آپ نے شادی بھی کرڈالی!‘‘
’’ ارے بھئی! میں نے ایک نہیں دو شادیاں کی ہیں۔‘‘
’’ ویر ی گُڈ!‘‘ وہ پہلی بار مسکرائی،’’ دوشادیاں، دوبیویاں!تو پھر انگوٹھی ایک کیوں ہے؟دو پہنیں ناں!‘‘
میں ہنس دیا۔
’’تیری بات بالکل درست ہے،کوشش کروں گا کہ دو پہنوں۔‘‘
’’انکل! میں ہمیشہ صحیح بات کرتی ہوں۔‘‘
یہ ہماری پہلی تفصیلی ملاقات تھی۔
ایک دن پلازا کا ٹرانسفارمر خراب ہوگیا۔کئی لوگ فلیٹس کی بھٹیوں سے نکل آئے۔شبانہ بھی کچھ بچوں کے ساتھ کمپاؤنڈ میں کھڑی تھی۔واپڈا والے مرمت کررہے تھے۔شبانہ نے مجھے دیکھا تو آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے پاس آئی۔میں اسے کسی حد تک بھلا چکا تھا،لیکن جب اسے دیکھا تواس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے سوالات یاد آگئے۔
’’انکل! آپ اندھیرے میں کیوں کھڑے ہیں؟‘‘
’’ تم کیوں کھڑی ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ آپ کے پاس تو جنریٹر ہے،چلائیں،شور کریں اور اندر جاکر آرام کریں۔‘‘
’’ جنریٹر کی بجلی پنکھوں سے گرم ہوا دیتی ہے۔‘‘
’’ آپ کا مطلب ہے کہ اے سی نہیں چلتا۔‘‘
’’ بالکل صحیح۔‘‘
’’ تو پھر فین کے نیچے برف رکھیں یا پھر برف کے پروں والے پنکھے لگوائیں۔آپ امیرہیں،آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘
’’ شبانہ! برف کے پروں والے پنکھے کہاں ملتے ہیں کہ لے آؤں ؟‘‘
’’ مل جائیں گے۔نہیں ملتے تو بنوالیں۔ ہاں، ہمارے گھر میں تو موجود پنکھے گرم ہوا دیتے ہیں،ہمیں تو گرمی نہیں لگتی۔‘‘
میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں ہنسنے لگا۔وہ بچوں کے ساتھ مجھ سے دور ہوگئی۔فلیٹوں میں رہنے والے کئی مرد کمپاؤنڈ میں کھڑے تھے۔سب کی نظریں ٹرانسفارمر اور واپڈا والوں پر تھیں۔
ہمارے پلازا میں ابھی تک اندھیرا تھا،میں بھی نیچے ہی کھڑا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ شبانہ کچھ ہم عمر بچوں کے ساتھ کھڑی تھی۔اس کی آواز الگ سے پہچانی جارہی تھی۔آواز میں تو کوئی خاص بات نہیں تھی، لیکن وہ تیز تیز ضرور بول رہی تھی:
’’آؤ،خدا سے دعامانگیں کہ مینہ برسائے۔بار ش کے قطروں میں چھوٹے چھوٹے بلب لگے ہوں، چاروں طرف روشنی بھی ہوجائے۔گرمی بھی ختم ہوجائے اور میرے بدن سے انہوریاں بھی مٹ جائیں ۔ ‘‘
’’ ایسی کوئی بارش نہیں ہوتی۔‘‘ایک لڑکی نے کہا۔
’’میری ماں کہتی ہے کہ خداتعالیٰ بڑا طاقت ور ہے،وہ بغیر مینہ برسانے کے بھی آسمان پر روشنی کرسکتا ہے۔خداتعالیٰ کی روشنی کو ٹرانسفارمر اور واپڈا کے مستریوں کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘
میں نے گردن پھیر کر شبانہ کی طرف دیکھا جو سب بچوں کو خدا کی طاقت اور روشنی کے بارے میں تفصیل بتا رہی تھی۔
کچھ دیر کے بعد بجلی بحال ہوئی اور ہر قسم کی بات چیت اورپریشانی ختم ہوگئی اور جتنے بھی فلیٹس کے باشندے باہر کمپاؤنڈمیں کھڑے تھے،وہ سب اپنے اپنے فلیٹس کو واپس جانے لگے۔
دوتین ایام کے بعدشبانہ پھر مجھے سیڑھیوں پر ملی۔میں ایئرپورٹ کو جارہاتھا۔شام کے پانچ بج رہے تھے۔شبانہ نے مجھے دیکھا تو مسکرا کر کہا،’’ سلام، انکل!‘‘ اس کے ہاتھوں میں سالن بھرا پیالا اوراس کے نیچے پلیٹ،جس میں کچھ روٹیاں تھیں ۔وہ جب میرے قریب سے گزر تو ٹھہر گئی۔
’’ انکل! آپ نے پرفیوم لگایا ہے؟‘‘ اس نے طویل سانس لیا اور میں نے اپنی قلف شدہ قمیص کی طرف دیکھا۔
’’ہاں،کیا تمہیں پرفیوم اچھا لگتا ہے؟‘‘
’’ مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’مجھے بھی اچھالگتا ہے،‘‘ میں نے کہا،’’لیکن تم نیچے د یکھو،سالن گررہاہے۔‘‘
شبانہ نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے برتنوں کو دیکھا اور فوراََ انہیں سنبھالتے ہوئے کہا،’’پروانہیں ہے،اس طرح کے برتنوں میں چیزیں گرتی ہی ہیں۔‘‘ اور چلتی بنی۔
میں نے محسوس کیا کہ شبانہ کے حواس پر پرفیوم کی خوشبو چھائی ہوئی تھی۔میں بھی تیز تیز زینے اترنے لگا۔شبانہ پوری راہ میں میرے ذہن پرموجود رہی۔
پھر وہ کچھ دنوں تک مجھے دکھائی نہیں دی۔میں نے پوچھاتو پتہ چلا کہ اسے میعاد ی بخار ہوا ہے۔میں ایک شام اسے دیکھنے گیا۔اس کے نصف درجن بھائی بہن موجود تھے ۔شبانہ کی ماں بھی موجود تھی،اس کے چہرے پر خون نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا جسم بھی عمر کے لحاظ سے عورت کے بجائے لڑکی کا لگ رہاتھا، لیکن اس کی آنکھیں شبانہ کی طرح تھیں۔
میں نے شبانہ کی پیشانی چوم لی اورپرفیوم کی ایک چھوٹی سی بوتل اسے دی۔شبانہ کی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی اور اس نے آہستگی سے کہا،’’ انکل! تھینک یو۔‘‘
’’بھائی صاحب! عجیب قسم کی لڑکی ہے،اس کے ذہن اور آنکھوں میں خوشبو اور روشنی بھری ہوئی ہے۔‘‘ شبانہ کی ماں نے کہا،’’پگلی ہے،پتہ کیا کیا کہتی رہتی ہے۔کسی کی نظر لگ گئی ہے اسے۔بڑی ہوکر پتہ نہیں کیا کرے گی؟‘‘
’’یہ بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’اس سے خوشبو اور روشنی مت چھینیے گا۔یہ خوشبو اور روشنی کے باعث ہی جی پائے گی۔‘‘
شبانہ کی ماں نے میری طرف دیکھا اور آنکھیں جھکادیں اور میں بھی اس وقت اٹھ کر چلاآیا،لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کی آنکھوں میں بھی شبانہ کی آنکھوں ایسی ہی خواہشیں اور تمنائیں بھری ہوئی تھیں،لیکن روشنی دھیمی اور خوشبو شاید اڑچکی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے