’’ ہائے۔۔۔ پَپُوسائیں! تم تو خواہ مخواہ ڈر رہے ہو۔۔۔ چھوری تم پر مری جارہی ہے مری۔۔۔‘‘ رَبُو نے آگ کے الاؤ میں لکڑی آگے کرتے ہوئے کہا۔
پَپُو سائیں نے ایک نظر رَبُوکو غور سے دیکھا۔
اُسے گھورتا دیکھ کر پَپُو نے کہا،’’ قسم رَب کی۔۔۔ میں چھوری کو دیکھتا ہوں نا۔۔۔ اُس کی نظر تم پر پڑتی ہے تو بس پوری کی پوری پگھل جاتی ہے، اُس کی آنکھوں میں لال ڈورے اُبھر آتے ہیں۔۔۔ چھوری کی چال میں فرق آجاتا ہے۔ اُس کا بَس چلے نا تو تمہیں وہیں گلی میں ہی دبوچ لے۔‘‘ رَبُو نے ہونٹ دانتوں تلے داب کر شہوتی تاثر دیا۔
’’ رَبُو ! تم مجھے مرواؤگے۔۔۔۔ اگر بابا کو پتہ چلا نا تو۔۔۔‘‘
’’ بڑے سائیں کو کیسے کھبر ہوگی ، سائیں!۔۔۔ اُسے کون بتائے گا؟‘‘ رَبُو نے ایکدم اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
پَپُوسائیں سوچ میں پڑگیاپھرتھوک نگلتے ہوئے کہا، ’’ اگر نُوراں نے کہیں دہائی دی تو ؟‘‘
’’ نہیں دے گی ۔۔۔ نہیں دے گی دہائی۔‘‘ رَبُو نے یقینِ کامل کے ساتھ کہا۔
’’ اگر موسی ملکاں سے کہہ دے تو پھر۔۔۔۔!‘‘
’’ ارے سائیں !۔۔۔۔ تم بھی باشاہ آدمی ہو۔۔۔ ملکاں بھی توآپ کے چوکھٹ کی باندی ہے نا ۔۔۔۔ ملکاں کون سی زمزم کی دُھلی ہے کہ بیٹی کی فریاد پر کان دھرے گی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو اوپر سے خوش ہوگی۔۔۔ اُس کی تو مال بٹورنے کی لالچ بھڑکے گی۔‘‘ رَبُو نے خالی انگوٹھے سے خیالی سکّہ اُچھالتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں،نہیں۔۔۔ موسی ملکاں بڑی اماں کی خاص خدمتگار۔۔۔ پورا دن اُس کا بدن دابتی رہتی ہے۔۔۔ تم یہ رذالت کا کام کرواکرمجھے مت مرواؤ۔‘‘
رَبُو نے کریر کی لکڑی ایسے پیلے دانت نکالے اور کِھی کِھی کرنے لگا اور پھر حسرت بھری لمبی سانس لے کرکہا،’’ اللہ قسم ۔۔۔ تیری جگہ اگر کوئی اور ہوتا نا تو پَل کی دیر بھی نہ لگاتا۔‘‘
پَپُو سائیں نے اُسے تیوری چڑھا کر دیکھا۔
رَبُو نے کہا،’’ سچ کہتا ہوں۔۔۔ چھوری ایکدم بھری ہوئی ہے۔۔۔ تم نا اُسے اگر اُنگلی سے چھوبھی لو تو پُھوٹ جائے۔۔۔‘‘
پَپُو سائیں کا تھوک نگلنا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
رَبُونے کہا،’’ بیٹھک میں، گلی میں، آتے جاتے، یونہی تانک جھانک کرکے، صرف تمہیں ہی ڈھونڈتی رہتی ہے۔‘‘
’’ مجھے ڈھونڈتی ہے۔۔۔۔!‘‘
رَبُو نے کہا،’’ ہاں نا۔۔۔ میں اُس کی آنکھیں دیکھ کر پرکھ لیتا ہوں۔۔۔ خواہ مخواہ کا جھوٹا سچا کام لے کربیٹھک کا چکرلگا جائے گی۔۔۔ پَپُو سائیں کہاں ہے ؟۔۔۔ پَپُو سائیں کو گھر بلا رہے ہیں۔۔۔ پَپُو سائیں۔۔۔ پَپُو سائیں۔۔۔‘‘
اتنے میں مسجد سے لوٹتے ہوئے بڑے سائیں کے قدموں کی چاپ اُبھری۔ رَبُو اٹھا اور نودوگیارہ ہوگیا۔
پَپُو سائیں خاموش ہوکرآگ کے اَلاؤ کو تکنے لگا۔ بات تو اُس کے دل کو بھی لگی۔ اب وہ اتنا معصوم بھی نہیں کہ نُوراں کی مٹکتی کمر، مسکان کے راز اور ترچھی نگاہ سے یہ بھی نہ جان سکے کہ لڑکی چاہتی کیا ہے ؟‘‘
ایک تو حَسین و جمیل جاگیردارخاندان کا بچہ، نئی پھوٹتی جوانی، سُوٹڈبُوٹڈکالجی لڑکا۔ جب بھی پف پاؤڈر کرکے باہرنکلتاہے تو آتی جاتی بھی ٹھہرجاتی ہیں۔
خالہ ملکاں کی بیٹی نُوراں عمر میں پَپُو سائیں سے دوچاربرس بڑی ہوگی، لیکن اُس کا گندمی رنگ، تگڑے بازو اور گدرایا ہوا بدن۔۔۔ کیا بات ہے !۔۔۔ جب نا ناز سے بازو ہلاہلا کر لچکتی چال چلتی ہے تو پھر کیا کہنا۔۔۔!جوانی کا تو اپنا ہی نشہ ہے ۔۔۔۔
رَبُو اپنی سی کرچکا ہے، لیکن چھوری ہے کہ اُسے گھاس ہی نہیں ڈالتی، مُڑ کر دیکھتی تک نہیں۔
رَبُو بھی اسی چوکھٹ کا نوکر ہے لیکن عمر میں نُوراں سے دُگنا بڑا ، کالا کلوٹا اور ایک نمبر کا کنگال۔ بیڑی تک دوسروں سے بھیک مانگ کر پئے، تو نُوراں کیوں اُس کے ناز اُٹھائے ! !
وہ اگر اُس کے گلے پڑنے کی کوشش کرے یا خوشامد برآمد کرے تو نُوراں اسے ایک بُجّہ دے کر چلی جائے۔یوں رَبُو نے نُوراں کے کئی بُجّے جھیلے ہونگے۔ اب تو اُسے نُوراں کی اس لعنت ملامت سے بھی یک گونہ سکون سا ملنے لگا ہے۔ لیکن نُوراں کی سانسوں کی ڈور توپَپُوسائیں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے، کہ دن رات ٹھنڈی آہیں بھرتی پھرتی او ر دعائیں مانگتی رہتی ہے کہ کب سّیاں جی راضی ہوتے ہیں!
نُوراں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر سائیں کے ساتھ بات کرے گی، اُسے دیکھتے ہی پھول کی طرح کِھل اُٹھے گی۔
اُسے حویلی میں اگرپَپُوسائیں کا کوئی کپڑا، کوئی شرٹ وغیرہ دھونے کا موقعہ مل جائے تووہ چوری چھپے سات سات بارمیلی قمیض سُونگھ سُونگھ کرجاگیردارنہ پسینے کی خوشبو لے گی۔
یوں کئی رُتیں آئیں اور لوٹ گئیں، آخر اُس کی امیدبرآئی۔ سردیوں کی ٹھٹھرا اور ہونٹ خشک کردینے والی راتیں گزرگئیں اور گرمیوں کی بدن کو جُھلسادینے والی لُو لگ رہی تھی کہ پَپُو سائیں اُسے بیٹھک کے بالاخانے میں لے گیا۔
نُوراں، پَپُوسائیں کی جرئت دیکھ کر باغ باغ ہوگئی۔ اُسے پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ تمام تر کارستانی اُس نابکار رَبُو کی ہے، جس نے اُس نَوبالغ لڑکے کو پٹی پڑھائی اور اُس کی ہمت بندھائی ہے۔
پَپُو سائیں بڑی مشکلوں سے اپنے حواس قابو میں رکھے ہوئے تھا۔ اُس کے لیے یہ گھڑی پُل صراط پارکرنے سے کم نہیں ۔
تلوار سے تیز اور بال سے پتلا پُل، اُس کی ٹانگیں تھیں کہ ٹِک نہیں پارہی تھیں۔
باہر بیٹھک میں موت ایسی خاموشی، رہ رہ کر کسی چڑیا کی چیں کی آواز اُبھرتی۔۔۔ ورنہ باقی گھر، گلیاں، سب اس تپتی دوپہر میں ویران اور سنسان۔ ہر نفس اپنے کمروں اور برآمدوں میں لیٹا ہوا۔
لیکن نُوراں کو ایسی لُو اور گرمی کی پروا تک نہ تھی۔۔۔ اس کے لیے گرم جُھلساتا دن بھی ساون بھادوں کی پُھوار ایسا تھا، اس لیے اُس نے خوشی بھری لمبی سانس لے کر پَپُو سائیں کو اپنی بانہوں میں بھرا تو پِرکلی ہیٹ پاؤڈر کی تاثیر کی طرح ایک ٹھنڈک سی اُس کے بدن میں دوڑ گئی۔ اور پَپُو سائیں کی ویسی ہی جوابی کارروائی سے نُوراں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، اُس کی آنکھیں بڑھتے خمار کے سبب بند ہوگئیں۔ یہاں تک کہ اُس کے پاؤں زمین سے اُٹھ گئے اور بڑی دیر تک آسمانوں کی سیر کرتے رہے۔
پھر جب اُن کا اُڑن کھٹولہ ڈگمگاتا ہوا عرش سے فرش پر آیا تب بندکمرے کی گھٹن میں دونوں بڑی بڑی سانسیں لے کر ایک دوسرے کو تکنے لگے اور انہیں ایک انجانے خوف نے جکڑ لیا۔
پَپُو سائیں بڑی سرعت کے ساتھ سیڑھیاں اُترکر، سَر جھکائے بیٹھک کے چھوٹے دروازے سے حویلی کی طرف یُوں کھسک گیا کہ جیسے یہ تمام کارروائی اُس کے ساتھ ہوئی ہو۔
دو پَل ٹھہرکرنُوراں اپنی قمیض کی سلوٹیں درست کرتی، کانپتی لرزتی سیڑھیاں اُترنے لگی۔ وہ جُوں ہی آخری زینہ اُتری تُوں ہی رَبُو جھپٹ کر سیڑھیوں کے نیچے سے نکلا اور اُس نے نُوراں کی کلائی پکڑلی ۔
’’ ہُم مم۔۔۔ تمہیں پَپُوسائیں اچھا لگتا ہے۔۔۔ اور مجھ میں کانٹے ہیں۔۔۔!‘‘
نُوراں پر جیسے بجلی گرگئی، اُس کی اُوپر کی سانس اُوپر نیچے کی نیچے رہ گئی۔
’’ چل اُوپر۔۔۔۔‘‘ رَبُو اُس کا بازوپکڑ کر کھینچنے لگا۔
’’ چھوڑ رَبُو۔۔۔ مت کر۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ۔۔۔‘‘
’’ چل ، میں کہتا ہوں۔۔۔ چل۔‘‘ رَبُو نے اُسے آنکھیں دکھائیں۔
’’ میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔ اللہ کا واسطہ دیتی ہوں۔‘‘
’’ چل ، ورنہ بڑے سائیں کو بتاتا ہوں۔۔۔وہ ابھی نماز کے لیے باہر آئے گا۔‘‘
بڑے سائیں کا سُنتے ہی چھوری پر لرزہ طاری ہوگیا، اُ س کا گلا خشک ہوگیا اور بدن کا کس بَل ہوا ہوگیا۔
رَبُو نے اپنے ناخن اُس کی کلائی میں کھبو دیے اور اُسے بالائی زینے کی طرف کھینچنے لگا اور نُوراں لاش بن کر، بغیر کسی مزاحمت کے گھسٹتی چلی گئی۔