دعاوں میں کبھی دیکھیں اثر کہاں تک ہے
پلٹ کے آئی صدا بے خبر کہاں تک ہے
اک عمر ہو گئی خود کی تپش سے دور ہوئے
تمہاری زلف کا سایہ مگر کہاں تک ہے
کبھی تو زخم جگر پھر سے جاں کو آئے گا
سفرمیں ساتھ میرے چارہ گرکہاں تک ہے
یہ کائنات تو صحرائے بیکراں ہے مگر
میں سوچتا ہی رہا اپنا گھر کہاں تک ہے
وہی مزاج وہی طور ، پھر وہی منظر
کوئی بتائے یہ رنگ سفر کہاں تک ہے
وہ درددل کی حدیں ہم سے پوچھتے ہیں وھاب
یہ نیم شب کی تڑپ ، کیا خبر کہاں تک ہے