اس نے بھی خود کو بے کنار کیا
جس کا ساحل نے انتظار کیا
جس کا ساحل نے انتظار کیا
آئنے میں سلگ رہا تھا لہو
پھر بھی حیرت کا دل شمار کیا
کورا ہونے سے پیشتر میں نے
ایک اک رنگ اختیار کیا
میری دیوانگی بھروسہ رکھ
میں نے پانی کو بھی غبار کیا
میں تو آنکھوں سے بات کرتا ہوں
تم نے ہونٹوں پہ اعتبار کیا
میں کہیں بھی پہنچ نہیں پایا
کیونکہ سائے کو رہگزار کیا
اپنی تسکین کے لیے اس نے
پھول کو شاخ پر سوار کیا
تم بھی مصروف ہو رہے رضا
تم نے بھی عشق اختیار کیا؟