1
روشنی بٹ رہی تھی آیت کی
ہجر کی تاب میں نے رخصت کی
کر لیا کام اپنے حصے کا
ہوگئی نظم اپنی ہجرت کی
خامشی جس طرف طواف میں ہے
اس طرف جا کے میں نے بیعت کی
مجھے معلوم تھا کہ بے حس ہوں
اس نے بے کار میں وضاحت کی
اور پھر چیخنے لگاخود پر
جس نے مجھ سے گھڑی روایت کی
اس نے بھی آئنے کو توڑ دیا
میں نے بھی ٹوٹ کر محبت کی
مجھے لازم تھا صبر، میں نے کیا
مجھے حجت تھی ان سے نسبت کی
2
اذن ملتے ہی درِ میر سے نکلا اک دن
عشق امکان کی تصویر سے نکلا اک دن
رسّیاں ڈال کے، گردن سے مجھے کھینچا گیا
پاؤں کیا حلقہء زنجیر سے نکلا اک دن
میں وہاں دیر سے پہنچا تھا زرِ چشم لیے
تشتِ خورشید بھی تاخیر سے نکلا اک دن
عکس آئینہ ء دل تھا سو بغاوت کے سبب
سرِ شب خواہشِ تعمیر سے نکلا اک دن
رنگ آہنگِ تمنا سے ہوا تھا قائم
اور منظر مری تحریر سے نکلا اک دن
سلسلہ وار شفق مجھ پہ اتاری ہوئی تھی
اس لیے طرزِ اساطیر سے نکلا اک دن
3
سفال چاک پر پڑا کھنک نہیں رہا
بہت دنوں سے میرا دل مسک نہیں رہا
وہ کیسی رسم و راہ تھی زبان بند تھی
میں اب میانِ گفتگو اٹک نہیں رہا
زمیں کے ایک پھیر سے بدل گیا ہوں میں
وہ یوں کہ اس کا انتظار تک نہیں رہا
میں گردِ راہ بن چکا؟ بجا! وہ ایسا ہے
میں سال بھر سے آئنے کو تک نہیں رہا
تمام لوگ اشک پی کے مر نہیں رہے
الم کسی کی آنکھ سیجھلک نہیں رہا
تمھارے خط کہیں چھپا کے رکھ رہا ہوں میں
تمھیں کسی بھی حال میں جھٹک نہیں رہا
تو کیا تمام عمر سانس پھولتا رہے
عقیل میں قدم اٹھا کے تھک نہیں رہا