یہ مقالہ 10اپریل 1988کو ’’پشتون اولسی کمیٹی ‘‘ کی طرف سے سائنس کالج کوئٹہ کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں پڑھا گیا ۔ (ادارہ)۔
پاکستان ایک کیثر الطبقاتی ریاست ، مختلف قومیتوں کا وطن ، اور ایک کیثرالتشکیلاتی سماج ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک مخصوص طبقاتی وسماجی ڈھانچہ ہے۔
پاکستان روزِ اوّل ہی سے عالمی سامراج کی سیاسی ومعاشی محکومی کا شکار رہا ہے ۔ اور 1947ء میں سیاسی طور پر برطانوی استعماریت سے آزادہونے کے باوجود معاشی طور پر اب عالمی سامراج کے نئے قسم کی ’’نو آبادیاتی نظام ‘‘ نو استعماریت کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے ۔کہ ہماری معاشی وسماجی ترقی کی رفتار بہت سست ہے اور ہمارا معاشی وسیاسی ڈھانچہ بہت پسماندہ رہ گیا ہے ۔
پاکستان میں سرمایہ دار اور پرولتا ریہ صرف دو ہی طبقے نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں اگر سرمایہ داری پائی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ جاگیردارانہ باقیات بھی موجود ہیں تو قبائلی رشتے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس طرح سرمایہ داری اور سرمایہ داری سے پہلے کے تمام سماجی تعلقات کے آپس میں گتھم گتھا ہوجانے سے ہمارا سماجی ڈھانچہ بھی کیثر اتشکیلاتی ہوگیا ہے ان کی وجوہات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوجائیگی۔ اگر ہمارے پیش نظر سامراجی نظام کی معاشی تدابیر ذہن میں ہوں کہ سامراجی اپنی نو آبادیات میں ترقی اپنی ضرورت کے مطابق کرتے ہیں ۔ چونکہ ان کا سارا زور صرف اپنی ضرورت کی پیداوار کے بڑھانے پر ہوتا ہے ۔ جس کے لیے وہ پیداواری تقسیم بھی غیریکساں رکھتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے مختلف علاقوں کی ترقی بھی غیر یکساں ہوتی ہے ۔
پاکستان میں اپنے سماج کی ضرورتوں کے لیے مختلف پیداواروں کو پیدا کرنے اور اپنے سماج کا بوجھ اٹھانے والی آبادی میں مزدوروں ، خاص کر صنعتی مزدوروں سے کہیں زیادہ کسان پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں کی اور خصوصاً پرولتاریہ کی تعداد بہت ہی کم ہے جس کی وجہ یہاں کے مزدور طبقے کی تنظیم بھی بہت کمزور ہے ۔ چونکہ یہاں بھر پورصنعتی ترقی ہونے نہیں پائی ہے ۔ اس لیے مزدوروں کی تعداد بہت کم ہے اور ہمارے یہاں کے مزدورتنظیمی تعداد کے ساتھ ہی ساتھ طبقاتی شعور کے اعتبار سے بھی ہندوستان کے مزدوروں سے لگا نہیں کھاتے ۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے صنعتی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد چھوٹے اور اوسط درجے کے کارخانوں میں کام کرتی ہے ۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے صنعتی کارخانوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس لیے کہ وہ چھوٹے اور ، وسط درجے کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آپس میں بے خوف اور بے جگری سے ملنے اور متحد ہونے سے گھبراتے ہیں ۔ دوسری سبب یہ ہے کہ مزدور اپنے روزگار کی تلاش میں اپنے اپنے علاقوں اور صوبوں سے دوسرے صوبوں میں نقل مکانی کر کے آئے ہیں جس سے دوسری زبان بولنے والے اور دوسری تہذیبوں میں گُھل مل جانے کے بجائے الگ تھلگ رہتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ طبقاتی اتحاد کے فقدان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور ان کا طبقاتی شعور بھی تیزی کے ساتھ ترقی نہیں کرسکا ۔ تیسری سبب یہ ہے کہ یہ طبقہ دیہاتی زندگی سے نکل کر اپنی کاشتکارانہ ذہنیت ، کم زوریوں ، قومی اور زرعی تعصبات کے ساتھ شہروں کی صنعتوں میں کام کرنے کے لیے مجبوراً آیا ہے ۔ کیونکہ ان کی زمینوں پر اتنی کاشت نہیں ہوتی ۔ جس پر تمام خاندان کی گزر بسر ہوسکے ۔ اور اگر اتنی کاشت ہوتی بھی ہے تو مہاجن اور دوسرے اس کی محنت سے پیدا کی ہوئی فصل ہتھیالیتے ہیں، اس لیے ان کے طبقاتی شعور میں شامل وہ کسان کمزوریاں اور تعصبات بھی اپنے ساتھ لے آیا ہے ۔ ان میں اکثریت اب بھی زمینی اور زرعی رشتے رکھتی ہے جس سے ان کے سماجی اور معاشی تعلقات متاثر رہتے ہیں ۔ اس لیے یہ اپنے ساتھ کمزوریاں اور تعصبات بھی رکھتا ہے۔ یا پھر قبیلوں کے تعلقات کا محتاج ہے ۔ چوتھی سبب یہ ہے کہ صنعتی مزدوروں میں غیر ماہر مزدوروں کی تعداد80فیصد ہے جونا خواندگی کی بنیاد ی وجہ سے ہے اور پھر ان مزدوروں میں نو عمر بچوں اور عوتوں کی کثیر تعداد بھی ہے۔ اس لیے پاکستان میں یہ طبقہ ایک مُوثر ترقی پسندانہ اور قائدانہ کردار ادا کرنیکی صلاحیت سے قاصر نہیں تو کمزور ضرور ہے۔!
پاکستان میں زرعی محنت کاروں سے مزدوروں، خاص کر صنعتی مزدوروں ، پرولتار یا کا تناسب ۔ بہت ہی کم ہے۔1983-84کے سروے کے مطابق جنگلات ، شکارگاہوں اور ماہی گیری میں56.73فیصد محنت کار تھے ۔ جب کہ صنعت میں 13.44فیصد محنت کار اور محنت کش ہیں۔ دیہاتی آبادی میں محنت کاروں کا یہ تناسب یقیناًزراعت کے کم ترقی یافتہ ہونے کا بین ثبوت ہے کیونکہ آج بھی ہماری زرعی زمینوں کا بڑا حصہ بٹائی پر مزار عوں کو دیا جاتا ہے ۔ اس لیے بڑے زمیندار ، جاگیر دار اب بھی صنعتوں کو قائم کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ پنجاب اور سندھ کے کچھ حصوں میں زمیندار مشینوں (ٹریکٹروں ) کے ذریعے کاشتکاری کر رہے ہیں۔ جس نے ہاریوں او رمزارعوں کے استحصال کو اور بھی شدید بنادیا ہے ۔ بڑی بڑی زمینداریوں اور جاگیر ی باقیات کے قائم رہنے کے سبب سے ایک طرف مزار عہ نظام باقی ہے ۔ تو دوسری طرف بٹائی کا سلسلہ بھی جس سے دیہی آبادی کا افلاس ختم نہیں ہوتا ۔ اور قوتِ خرید باقی نہیں رہی ۔ اس طرح مقامی صنعتوں کی پیداوار کی منڈی بھی سکڑ کر رہ گئی ہے اور ان صنعتکاروں کو اپنے مال کی کھپت کے لیے بیرونی منڈیوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ۔ جہاں پہلے ہی سرمایہ دار ملکوں اورعالمی سامراج کا قبضہ ہے۔
پاکستان میں صنعتی کمزوری کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں روزِ اوّل ہی سے سامراج نے عملاً یہاں کے حکمران طبقے اور حکمران قوتیں ان ہی کو بنائے رکھا۔ جن کے مفادات عالمی سامراج سے وابستہ تھے ۔ یعنی جاگیردار ، زمیندار ، گماشتہ سرمایہ دار اور سول اور فوجی نوکر شاہی جوزمین اور سرمائے دونوں سے اپنے مفاد وابستہ رکھتی ہے اور عالمی سامراج کی پابند ہونے کی وجہ سے ان حکمران طبقوں اور قوتیں میں وہ بوتا ہی نہیں ہے کہ وہ ملک کے اندر بھاری اور بنیادی صنعتیں قائم کریں ۔ جن کے وسیلے سے کم زور مقامی سرمایہ کار بھی ہمت کے ساتھ سرمایہ کاری کرتا ۔۔۔ اور دونوں مل کر اراضی کی انقلابی اصلاح کر کے جاگیرداری اور بڑی زمینداریوں کاخاتمہ کردیتیں ۔ اور ملک میں وسیع پیمانے پر صنعت کاری کا ایسا منصوبہ عمل میں لاتیں کہ ملک کی معیشت نو استعماریت سے آزاد ہو کر خود مختاری کی راہ پر لگ جاتی ۔ پاکستان میں اراضی کی موثر ترقی پسندانہ اور انقلابی اصلاحات کے نہ ہو نے کی وجہ سے زمینداروں کا طبقہ معاشی اور سیاسی دونوں طرح سے اب بھی بااثر اور طاقتور ہے ۔ جن کے مفادات سامراجی ملکوں کی اجارہ داریوں سے بھی وابستہ ہیں ۔ یہ اجارہ داریاں زمینداری اور زمیندار طبقے کی اس لیے مدد کرتی ہیں اور ان کے تسلط کو ہمارے سماج اور سیاست میں قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ زمیندار جاگیر دار طبقہ ملک میں نہ صرف صنعتی ترقی ہی میں حارج نہیں ہے بلکہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کو بھی روک دیتا ہے ۔ تاکہ سامراج دشمن عوام کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے ۔ان جاگیرداروں اور زمینداروں میں ایک حصہ وہ ہیں جنہیں زمین وراثت میں ملی ہے ۔ ان کے علاوہ راشی اور سول فوجی نوکر شاہی کو کچھ زمین تو انعام میں ملی ہے اور کچھ انہوں نے رشوت سے حاصل کی ہے۔
پاکستان میں ان مختلف قسم کے زمینداروں کے طبقے اب بھی سب سے زیادہ طاقت ورہیں ۔ کیونکہ اکثر اراضی کاغذی اصطلاحات کے باوجود بڑی بڑی زمینداریاں جوں کی توں قائم ہیں۔ ان میں سے بیشمار خاندان شامل ہیں جن میں جاگیرداری اور روحانی پیشوائیت دونوں جمع ہوگئی ہیں ۔ یہ تمام خاندان اپنی زمینی ملکیت کے تعلق اور مذہبی پیشوائی کے ناطے اپنے ہاریوں اور مزرعوں کے ذریعے جواُن کے ووٹرز بھی ہیں۔اسمبلیوں میں پہنچ کر ہمارے سیاسی رہنما بھی بن جاتے ہیں ۔ مزدوروں اور کسانوں کی تنظیموں کے مضبوط ہونے اور استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ان کے تنظیمی اتحاد کو قائم کرنے میں خصوصاً کسان سبھاؤں کے بننے میں سب سے زیادہ جاگیرداروں اور زمینداروں کا طبقہ حارج ہوتا ہے ۔ ان زمینداروں کے ہوتے ہوئے ملک میں صنعتیں قائم نہیں ہونے پاتیں جس کی وجہ سے مزدور طبقہ نہ تعداد میں بڑھ سکتا ہے اور نہ بڑے پیمانے پر منظم ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی یہ تنظیمیں خود زمینداروں اور زمینداریوں کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔
مجموعی طور پر تمام بڑے زمینداروں کا طبقاتی مفاد ایک ہی ہوتا ہے۔ جو سامراجی طاقتوں سے وابستہ ہوتاہے۔ پاکستان میں سیاسی آزادی حاصل ہونے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ اور سیاسی آزادی کو قائم رکھنے کا ناگزیر مرحلہ سامراج کے معاشی استحصال سے آزادی کا مسئلہ ہے جس کی جدوجہد میں سامراج دشمن محنت کار عوام کی رہبری کرنی ہے۔ لیکن زمینداروں کی یہ مختلف شکلیں جو ہمارے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں موجود ہیں، سامراج کے خلاف معاشی خود مختاری کی اس لڑائی میں عوام کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ دشمنی پر اُتر آتی ہیں۔ کیونکہ آج بھی سارا سیاسی اقتدار ، زمینداروں، ان کے حلیف راشی سول وفوجی نوکر شاہی کے ہی ہاتھوں میں ہے جو ایسے قوانین بناتے ہیں کہ مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیں قائم ہی نہیں ہوپاتیں اور اگر قائم بھی ہیں تو انتہائی بودی بنیادوں پر کہ جس کی وجہ سے ان میں وہ اتحاد ہی نہیں ہو پاتا ۔ جو سامراج سے معاشی خود مختاری حاصل کرنے کی جدوجہد کے لیے بیحد ضرور ی ہے ۔ پاکستان میں سامراج سے معاشی خود مختاری کی جدوجہد میں وہ سرمایہ دار طبقہ بھی اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا جو یہاں موجود تو ہے لیکن زمیندارا نہ نظام کی موجودگی میں زمینداروں کے معاشی اور سیاسی اقتدار سامراجی سرمائے کے تسلط اوریلغار کی وجہ سے بہت جلد شکست خور دہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا ہے۔
پاکستان میں سول اور فوجی افسر شاہی ، اپنی رشوت سے کمائی ہوئی دولت کے تحفظ کے لیے جو زمین اور تجارت میں لگی ہے سامراج نواز طبقوں ، جاگیرداروں ، زمینداروں اور گماشتہ سرمایہ داریوں کی پشت پناہی کرتی ہے ۔ چونکہ سول اور فوجی انتظامیہ میں متعدد بڑے بڑے افسروں کا مفاد زمین اور سرمایہ دونوں سے پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ رشوت اور سامراجی ملکوں سے کمیشن کے ذریعے اپنی دولت پیدا کرتے ہیں۔ مختلف تجارتی کاروباروں، بینکوں اور صنعتوں میں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں اور حکومتی اقتدار کے بل پر بڑی بڑی اراضی بھی پیدا کرلیتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی ان کا طبقاتی مفاد بھی سامراج ، زمینداری اور گماشتہ سر مایہ داری سے وابستہ ہوگیاہے۔ اپنی دولت اور سرمائے کے تحفظ اور جتن کے لیے یہ سب طبقے اور قوتیں محنت کار عوام اور محنت کش طبقے کو سیاسی اقتدار سے محروم رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تاکہ قومی مسائل کا زیادہ سے زیادہ استحصال سامراجی کر سکیں۔ جس کے وہ ساجھے دار ہیں اور ہمہ گیر ترقی کی راہیں روک دی جاسکیں اور ملک میں صرف مال، اینم تیار شدہ مال ، اشیائے صرف کی تیاری کی جاسکے ۔ صنعت کاری اور خصوصاً اشیائے سرمایہ کی صنعتوں کو روکاجاسکے۔ یوں ملک کو سامراجیوں کے لیے خام مال اور نیم تیار شدہ مال کی منڈی کے طور پر استعمال کرنے ، سامراجی اور عالمی اجارہ دار یوں تیار شدہ مال اور اُن کے اسلحے کو پاکستان کا بازار بنا سکیں ۔ اور اسی صورت میں حکمراں طبقوں کے منافع کے مواقع رہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقوں ، نیز دیگر وطن دشمن قوتوں کی بقا ء کادار ومدار اسی نظام کی زندگی پر منحصر ہے اور اسی سے وابستہ بھی۔
پاکستان میں پہلے ہی روز سے اسی قسم کا ایک سامراج نواز طبقاتی ڈھانچہ رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ کہ اس ملک میں جمہوری اداروں تک کو بھی قائم نہ ہونے دیا جائے ۔ اس لیے آزادی کے ابتدائی برسوں سے ہی ایک جمہوری آئین تیار کرنے اور بورژوا جمہوریت تک کو قائم کرنے کے خلاف بھر پور سازشیں ہوتی رہیں ۔ جس میں سامراج نواز سیاست دانوں کے ساتھ انتظامیہ اور فوج کے حصے جنہوں نے امریکہ کے مختلف اپنے ذاتی اور سرکاری دوروں میں اپنے سامراج نواز قوتوں کے گٹھ جو ڑ کو مکمل کر لیا ۔اس کے ساتھ ہی عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کی لڑائی لڑنے والی سب سے بڑی اور اہم طاقت یعنی مزدور طبقے کی معاشی اور سیاسی تنظیموں ان کی حلیف قوتوںیعنی طلبہ اور دانشوروں کی انجمنوں کو ختم کر کے 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا کر ان کے دفاتر مقفل کردیے۔
پاکستان میں کمیونسٹوں کا المیہ اسی وقت سے شروع ہوگیا جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ۔ اس وقت کمیونسٹوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ زیر زمین کام کرتے ہوئے مزدور طبقے کے عوام کو دوسرے طبقوں کے ساتھ ملا کر جو اس کے حلیف ہوسکتے ہیں جمہویت کی جدوجہد کرنی چاہیے ۔ مگر ان کے کام میں یہ پیچیدگی پیدا ہوگئی کہ کمیونسٹوں نے ایک صحیح نظریاتی موقف اپنایا، مگر غلط سمت میں قدم بڑھایا ۔ انہوں نے ہم جیسے دوسرے ملکوں کی زیر زمین کمیونسٹ پارٹیوں کے طریقے کو نہیں اپنایا جو مزدور طبقے کی سیاسی پارٹی کی شکل میں سب سے الگ ایک خود مختیار سیاسی وجود رکھتا ہے اور زیر زمین رہتے ہوئے بھی کمیونسٹ عوام کے جمہوریت پسند طبقوں ، پر توں اور ترقی جمہوری قوتوں سے اپنا راست رابطہ رکھتے ہیں اور ان کو ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ آپس میں جوڑتے اور مربوط کرتے رہتے ہیں۔ ہماری طرح کسی کیثر الطبقات سیاسی پارٹی کو اپنا ’’سیاسی محاذ‘‘نہیں بنالیتے اور اس کو مزدور طبقے کے سیاسی پروگرام کو عمل میں لانے کا بھی ذریعہ نہیں سمجھتے ، اور نہ ہی ذریعہ بنالیتے ہیں جیسا کہ ہم کرتے ہیں ۔ کمیونسٹ ان کیثر طبقات سیاسی جماعتوں میں اس خیال سے شریک ہوئے کہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں ان ہی جمہوری قوتوں اور طبقوں کے ’’متحدہ محاذ‘‘ہیں جو مزدور طبقے اور خود کمیونسٹوں کے حلیف ہوسکتے ہیں اور ان کا بھی مقصد جمہوریت کی جدوجہد کی وجہ سے سامراج مخالف ہوگا ۔ جو دراصل مزدور طبقے کا فریضہ ہے۔ لیکن یہ اس عملی مشکل کی طرف سے غافل ہوگئے کہ ان جماعتوں میں موجود طبقے بھی ان کی کوئی مُوثر رہنمائی یا کردار ادا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی قیادت کم سے کم کسی بھی اور کبھی بھی بورژوا کے ہاتھوں میں نہیں رہی تھی ۔ جو اپنے کسی بھی تضاد کی وجہ سے سامراج سے لڑسکتا ہے۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت تو ہمیشہ جاگیردار ، زمیندار طبقے کے اور قوم پرست نمائندوں کے ہاتھ میں رہی جن کی اکثریت اپنے طبقاتی مفاد کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سامراج کی ہی محتاج رہی ہے۔
کیثر طبقات سیاسی پارٹیوں میں شامل طبقات اور افراد کا حصہ برابر نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان جماعتوں کا تمام اختیار ان طبقوں کے اُن افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو ملک کی معیشت اور سیاست میں بالادستی رکھتے ہوں۔ چونکہ انکی سماجی حیثیت انہیں سیاست اور معیشت میں ممتاز دیتی ہے ۔ جو ہمارے جیسے پسماندہ سماجوں کا خاصہ ہے ان کیثر الطبقات سیاسی جماعتوں کی پالیسی بنانے میں اس کی جدوجہد کی سمت اور اس کی حد مقرر کرنے میں ان طبقوں کی صوابدید ہی سب کچھ ہوتی ہے ۔ پھر یہ کہ کمیونسٹوں کی یہ سوچ خود ایک سنگین غلطی ہے کہ یہ کیثر الطبقات سیاسی جماعتیں’’ متحدہ محاذ‘‘ ہیں جس میں بیٹھ کر وہ ’’اتحاد ‘‘ اور ’’جدوجہد‘‘ کے مارکسی اصولوں کونہ سمجھنا اور متحدہ محاذ کے غلط تصورا نہیں ان سیاسی جماعتوں میں گھسیٹ کر لے گیا تھا۔ جہاں مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے والے افراد ان سیاسی جماعتوں کے ممبر ہیں۔ وہ اپنے اپنے طبقوں سے تعلق لکھتے ہیں ۔ مگر اپنے طبقوں کا ’’نمائندہ‘‘ یا ’’مندوب‘‘ نہیں ہیں جو اپنے تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے اور اس کے زور پر اپنے طبقات کے مفا دمیں پالیسی مرتب کرواسکیں ۔ کجا کہ کمیونسٹ ہونے کے ناطے زیر زمین رہتے ہوئے اپنی پارٹی لائن ان سیاسی جماعتوں میں منواسکتے ۔ اس لیے وہ ان میں بے بس بیٹھے ہوئے ہیں۔ البتہ ان سیاسی جماعتوں کی شاندار قرار دادیں تو یہ کمیونسٹ ہی تحریر کرتے آئے ہیں جو ہمیشہ طبقاتی لڑائی ، سامراج دشمنی اور جمہوری جدوجہد کے صحیح نعروں سے بھری رہتی ہیں ۔ مگر جب ان پارٹیوں کی قیادت عملی سیاست میں داخل ہوتی ہے ،اور حکومت یا دوسری سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے اصول یا مذاکرات یا عملی جدوجہد کے پروگرام بناتی ہے ۔ تو اس وقت ان مذاکرات میں یاان دستاویزات میں عوام یا مزدور طبقے کے مفادات یا اُن کے پروگرام کا ہلکا اشارہ بھی نہیں ہوتا ۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ حکمران طبقے اپنے مفاد کے لیے مزدور طبقے اور کمیونسٹ دونوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ کمیونسٹ ان سیاسی جماعتوں میں ’’عرضی نویس‘‘ اور نعرہ بازبن کر تو رہ سکتے ہیں ۔ مگرا ن کی پالیسی ساز نہیں بن سکتے ۔ کمیونسٹوں کا متحدہ محاذ کے بارے میں بودا علم انہیں ان کیثر الطبقات پارٹیوں میں گھسیٹ کر لے گیا۔ کیونکہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ متحدہ محاذ وہ ہوتا ہے جس میں کمیونسٹ دوسرے طبقات کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کم سے کم نکات پر‘ اُس دشمن طاقت کے خلاف بنایا جاتا ہے جس سے لڑنا اس اتحاد کا بنیادی مقصد ہوتاہے اور لڑائی کی جدوجہد تو ایک دشمن کے خلاف کی جاتی ہے اور پاکستان میں وہ دشمن سامراج ہے ۔ تو پھر سامراج نواز دشمن طبقہ تو زمیندار بھی ہے جس کے خلاف کمیونسٹوں اور عوام کو لڑنا ہے اور سامراج نواز دشمن طبقہ ہی ان کیثر الطبقات سیاسی جماعتوں کی قیادت کے روپ میں اصل پالیسی ساز بنا بیٹھا ہے ۔ تو ایسی کسی بھی سیاسی جماعت میں شریک رہ کر اس کے خلاف جدوجہد کرنا بھی محض خود فریبی ہے ۔ اور یوں بھی جب حکمراں طبقہ ہی سامراجی استحصال میں شریک ہو یا اس کا حلیف ہو او راس کے استحصال کاآلہ کار بنا ہوا ہو تو اس کی قیادت میں سامراج سے لڑنے کی تدبیریں کرنا محض خام خیالی ہے ۔
پاکستان کی ان کیثرالطبقاتی جماعتوں میں کمیونسٹوں کے شریک رہنے اور اسے متحدہ محاذ سمجھنے کا سب سے بڑا نقصان ایک یہ بھی ہوا کہ ان جماعتوں میں شریک رَہ کر وہ مزدوروں کو طبقاتی جدوجہد کے لیے طبقاتی شعور دینے میں غافل ہوگئے۔ چونکہ ان سیاسی جماعتوں کا اپنا منشور ہوتا ہے اور اس کا اپنا دستور ، جس کے تحت رہ کر وہ کمیونسٹ تو جانے جاتے تھے مگر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی نسبت کئی سے اس دوہرے ڈسپلن میں رہتے ہوئے کمونسٹوں کو مجبوراً اپنے انقلابی جدوجہد کے منشور ہے دستبردار ہونا پڑا۔ جو حکمراں طبقوں اور خود حکومت کی خواہش ہے۔ اور ان کیثر الطبقاتی پارٹی میں رہتے ہوئے وہ اپنے مقصد کے لیے مزدوروں اور کسانوں کو طبقاتی جدوجہد کے لیے ابھارتے ہیں۔ تو اُس سیاسی پارٹی کی ڈسپلن کی خلاف ورزی ایک سازش شمار ہوتی ہے اور اگر صرف سیاسی پارٹی کے منشور کو آگے پہنچانے کی جدوجہد کریں تو وہ قوم پرستوں جاگیرداروں کے جو سامراج کے حلیف ہیں۔ ان کے دُم چھلہ بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ان پارٹیوں میں شامل کمیونسٹوں کی منزل کھوٹی ہوگئی اور ان کے نعرے انقلابی لفاظی سے آگے نہ جاسکے۔
قوم پرستی کے دم چھلّہ بن جانے کے خوف سے کچھ کمیونسٹوں نے اپنے آپ کو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ یا منسلک نہیں کیا۔ کیونکہ یہ کمیونسٹ اپنے سیاسی پروگرام اور اس کے منشور کو آگے لے جانا اور عوام میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان میں ’’ قومیتوں کے سوال‘‘ کوکوئی اہمیت ہی نہیں ہے ، ان کے نزدیک صرف طبقاتی جدوجہد ہی سب کچھ ہے اور وہ’’قومی سوال‘‘کے حل کو طبقاتی جدوجہد کی کامیابی کے بعد کامرحلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس وقت قومی سوال پر بحث اُس قوم پرستی کو تیز نہیں کردے گی جو عوامی اتحاد کو کئی ٹکڑوں میں کاٹ دے گی ۔ جس سے صرف سامراج ہی فائدہ اٹھائے گی۔ یہ استد لال حقیقت میں اس بنیادی بحث ہی کی ایک دوسری صورت ہے کہ کیا ایک کیثر القومی ریاست میں قومیتوں کے حقوق کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد کی ایک صورت ہے اور اسی کا ایک حصہ ہے اور اسی نہج سے اُسے آگے بڑھا یا جائے تو وہ سامراج کے خلاف ایک لڑائی بن جائیگی ۔ یہاں ایک اور خیال بھی بحث طلب ہے جو اسی بنیادی بحث کی ایک اور شکل ہے ۔ وہ یہ کہ جب ملک میں اشتراکیت کا میاب ہوجائے گی ۔ تو قومیتوں کو اپنے حقوق مل جائیں گے ۔ جو جاگیرداری اور سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے انہیں نہیں مل سکتے ۔ گویا جب طبقاتی جدوجہد کی مہم تیز ہوجائے گی تو قومیتوں کی جدوجہد کا مرحلہ بھی جو اس جداگا نہ ہے خود بخودطے ہوجائے گا ۔ یہ بحث پھر پلٹ کر یہیں آجاتی ہے کہ کیا یہ دو لڑائیاں موجودہ حالات میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔پاکستان کے معروضی حالات میں یہ دونوں لڑائیاں ایک ہی ہیں کیونکہ جس سازش کے تحت اس ملک میں مارشل لاء لگائے گئے ہیں اس نے اس ملک میں ساری جمہوری قدروں کو پائمال کردیا۔ اور ایک طرح سے تمام مارشل لاء سماجی مفادات کو ہی تقویت دیتے رہے۔ مارشل لاء کے لیے فوجی جنٹا بمعہ فوج اور سول نوکر شاہی کی اکثر یت بھی ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ جہاں اس ملک میں بہت ساری جمہوری اقدارکی نفی ہوئی ہے ،وہیں اس ملک میں بسنے والی تمام چھوٹی قومیتوں کے فطری حقوق کی بھی نفی ہوتی گئی۔ جس سے ان میں احساس محرومیت شدت اختیار کرتا گیا۔ پاکستان میں قومیتوں کے حقوق کی نفی کرنے والے کمیونسٹ دانستہ یانا دانستہ طور سے ملک کے حکمران طبقوں کی سیاسی جماعتوں میں بیٹھ کر مزدور طبقے کی طبقاتی جدوجہد اور ان کے مفادات کی نگرانی کرنے کے بجائے ان حکمرانوں کی باہمی کشمکش میں قوم پرستوں کے ساتھ چھوٹے صوبوں کے حکمران طبقوں کے مفاد ات کے جو شیلے مجاہدبن گئے ہیں۔ اور اپنے جوش جہاد میں اپنی سیاسی پارٹیوں میں طبقاتی کش مکش کے نام ہی سے بدکنے لگ گئے ہیں ۔ جس طرح خالص طبقاتی سوال کو اٹھانے والے کمیونسٹ قومیتوں کے حقوق ہی کی نفی کرنے میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ ان کو طبقاتی جدوجہد کے علاوہ ہر مطالبے میں کھوٹ نظر آتا ہے ۔ اگر وہ ٹھنڈے دل سے اپنے مُوقف کا جائزہ لیں تو اُن کو معلوم ہوگاکہ ان کے موقف کی منطق اور رجعت پسند جماعت اسلامی کے استدلال دو الگ الگ منطقوں کے ساتھ ایک ہی موقف کی موئد ہیں کہ ’’پاکستان ایک قوم ہے‘‘۔ اس نعرے کے نظریاتی دھند لکے میں وہ یہ دیکھ ہی نہیں پارہے۔ کیونکہ پاکستانی قوم کی اساس ہی اسلام پر رکھی گئی ہے اور اسلام میں نہ تو طبقات ہیں اور نہ ہی کوئی ظالم وجابر اور مظلوم ۔کیونکہ اسلامی عقیدے کے مطابق سب بھائی بھائی ہیں اور ایک پاکستانی قوم میں پاکستان کی تمام قومتیں بھی اس میں معدوم ہوچکی ہیں اس لیے قومیتوں کا ذکر کرنا مسلم ۔۔قوم کی ملت کے تصور کی نفی کرنا ہے جس کی بنیاد اسلامی عقیدوں اور اصولوں پر قائم ہے۔
ہمیں ایسے وقت اہم چیز پیش نظر رکھنی ہے کہ مزدوروں کی یکتا کو قائم رکھتے ہوئے دونوں موقفوں میں اصولی طور پر فرق کریں جس حدتک مظلوم اور چھوٹی قومیتوں سے حکمراں طبقے جابر اور حاوی قومیت کے حکمراں طبقوں سے لڑتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ہر حال میں اور سب سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ اس کے حق میں ہیں۔ کیونکہ کمیونسٹ بہر حال ظلم وجبر کے کٹر اور سب سے زیادہ ثابت قدم دشمن قدم دشمن ہوتے ہیں ۔ لیکن جہاں مظلوم قومیت کا حکمراں طبقہ خود اپنی قوم پرستی کی علمبرداری کرتا ہے تو اس کی مصلحتوں کے پیش ہم اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ جب قوم پرست اپنی اپنی قومیتوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کا ذکر کرتے ہیں تو کیا وہ ایسی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے بارے میں بھی کچھ کہتے ہیں جن سے انکی قومیتوں کے بالائی طبقوں کی سماجی قوت بھی ٹوٹ جائے۔ تاکہ عوام اُن کے تسلط سے آزاد ہو کر سیاسی اقتدار میں اور اس سے حاصل ہونے والے معاشی فائدوں میں صحیح طور پر شریک ہوجائیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ان کی قوم پرستی انہیں تھوڑے سے بالائی طبقوں اور تعلیمیافتہ گروہوں کے مفادوں اور مقصدوں کی ترجمانی تو نہیں ہے ۔ جو اپنی سماجی حیثیت کے بل پر اپنے طبقاتی مفادوں کو پورا کر رہے ہیں ۔