’’ کمینی پیسے نکال‘‘
’’نہیں ہیں میرے پاس ‘‘
’’تیرے پاس نہیں ہیں تو تیرے یار کے پاس ہیں؟‘‘
’’کتنی دفعہ کہا ہے یہ گھٹیا زبان میرے ساتھ مت استعمال کیا کر۔‘‘
’’آگے سے بکتی ہے کتیا۔‘‘یہ کہتے ہوئے پھیکے نے اس کی چٹیا کو گدی سے پکڑ کر اپنے بازو پر بل دیتے ہوئے نیچے کھینچا تو کرب سے اس کے منہ سے ’’ہائے امّاں ‘‘نکلا۔اس نے چٹیا کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا ’’اپنی ماں ۔۔۔۔۔کو دئیے ہیں یا یاروں کو دے بیٹھی ہے؟۔بھونک کسے دئیے ہیں میں اس کی آندروں ( انتڑیوں) سے نکال لاؤں گا۔‘‘
شدتِ کرب سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تو اس کا غصہ دوچندہو گیا ۔
’’کتنی دفعہ بکا ہے میرے سامنے ٹسوے مت بہایا کر ۔مگر مچھ کے آنسو مجھے زہر لگتے ہیں۔ تیری منحوس صورت تو ویسے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا ۔اوپر سے تو ذرا ذرا سی بات پر رونے بسورنے لگتی ہے ۔چل رونا بند کر جو کہہ رہا ہوں وہ بک۔ کس یار کو دئیے ہیں؟‘‘
وہ غرّایا تو اس نے تیزی سے آنسو پونچھے ۔’’آج جیدی سے پیسے گم ہو گئے تھے۔کچھ نہیں لایا وہ گھر۔‘‘
وہ اسے چھوڑ کر دوسرے کمرے میں جیدی پر جا کر جھپٹا۔’’آج کی دیہاڑی کہاں ہے؟کس رنڈی کو دے آیا ہے؟‘‘
’’ابّا آج گر گئے پیسے ۔میں نے سائیڈ والی جیب میں رکھے تھے۔سو سو کے دونوٹ پھر ‘‘
پھر کہہ کر وہ خاموش ہو گیاتو اس پر جھپٹا ’’پھر کیا ؟‘‘
’’پھر گھر آ کر امّاں کو دینے لگا تو جیب خالی تھی۔‘‘
’’جھوٹ بکتا ہے کمینے؟‘‘
’’نہیں ابّا سچی۔میں جھوٹ نہیں بول رہا۔‘‘
’’اگر جھوٹ ہوا نا تو یاد رکھ تجھے بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
وہ اسے کتی کا بچہ کہتے ہوئے زوردار تھپڑ مار کر گھر سے باہر نکل گیا۔ماں اس کا منہ سہلاتے ہوئے اپنے ساتھ لپٹا کے بیٹھ گئی۔اپنے نیفے میں سے دو سو روپے نکال کے اس نے ماں کو دیتے ہوئے تنبیہ کی
’’ امّی !پیسے اپنی جھونپڑیوں میں مت رکھنا۔ابّا نے دیکھ لیا تو مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔‘‘
اس نے جیدی کے روکنے کے باوجود نوٹ وہیں رکھے۔
وہ فاتحانہ انداز میں بولا ’’ امّی ! میری ترکیب کام آئی اور پیسے بچ گئے۔‘‘
’’ پیسے تو بچ گئے پر میرے لال کا منہ تو لال ہو گیا۔‘‘
’’ اس کی خیر ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ پرجوش انداز میں ماں کو بتانے لگا
’’آج کی بات سنو امّی ! ایک گاڑی والا مجھے ٹپ کے بیس روپے دے رہا تھا مگر میں نے نہیں لئے۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘ماں نے استفسار کیا
’’ میں نے کہا سر میں منگتا نہیں ہوں۔میری امّی میٹرک پاس ہیں ۔میں بھی سکول میں پڑھتا تھا ۔مجھے پڑھنے کا بہت شوق بھی ہے۔ میری امّی مجھے بھی افسر بنانا چاہتی ہیں۔ مگر میرے ابے نے میرا سکول چھڑوا دیا ۔مجھے چھوٹا بنا دیا۔سب کا نوکر ۔کوئی کہتا ہے’’ چھوٹے ادھر آؤ۔‘‘کوئی کہتا ہے ’’ ویٹر بات سنو‘‘کوئی کہتا ہے ’’ ابے بات سن ‘‘ کوئی بلاتا ہے اوئے ! ادھر آ‘‘پر امّی کہتی ہے کہ یہ دن ہمیشہ نہیں رہیں گے ۔‘‘
پھر اس نے رک کر کہا ’’ امّی بوجھیں بھلا اور اس گاڑی والے نے کیا کہاْ ‘‘
’’بجھارتیں کیوں بجھوا رہے ہو ؟ خود ہی بتا دو۔‘‘
’’ ایک تو آپ بھی بڑی بور ہیں ۔اس نے کہا ’’ تم تو شکل سے ہی افسر لگتے ہو۔‘‘پھر پوچھا ’’تمہارے باپ نے پڑھائی کیوں چھڑوائی؟‘‘
’’ اس کے پاس میری پڑھائی کے لئے پیسے جو نہیں ہیں؟‘‘
’’ وہ کوئی کام نہیں کرتا ؟‘‘
’’ نہیں کرتا ہے ۔‘‘
’’کیا کرتا ہے؟‘‘
’’ نہ خود جینا چاہتا ہے نہ ہمیں جینے دیتا ہے ۔ چرس سے اپنا بھی خون جلاتا ہے اور ہمارا بھی۔‘‘
’’ اوہ so bad ۔اسے کوئی سمجھاتا نہیں کہ یہ بری اور نقصان دہ چیز ہے ؟‘‘( ماں کو بتاتے ہوئے اس نے گاڑی والے کے انداز میں so badکہا تو وہ مسکرا پڑی)
’’ اسے سمجھانے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔وہ کسی کی نہیں سنتا۔وہ کہتا ہے ’’obey the orderجو کہتا ہوں وہ کیا کرو۔‘‘
بات بتاتے بتاتے وہ ایک دم ماں سے مخاطب ہوا
’’ امّی ! اللہ میاں ہمیں پسند کا ابّا چننے کا اختیار کیوں نہیں دیتا ؟۔ہم سے پوچھے بغیر کسی بھی گھر میں ہمیں کیوں پیدا کر دیتا ہے ؟۔ نانی کو آپ کے لئے صرف یہ ہی ملا تھا؟ہماری روحوں نے کیا قصور کیا تھاجو ہمیں ایسا ابّا ملا۔
امّی چھوڑ ان باتوں کو یہ بتا ’’ میں کب سکول جاؤں گا؟‘‘
’’ اب خاموشی سے اپنے بستر میں جا کے سو جاؤ۔‘‘
ماں کو جواب دینے کی بجائے سلا دینے کا خیال زیادہ بہتر لگا۔اس لئے اسے بازو سے پکڑ کر بستر میں لٹا آئی ۔اس نے بھی تھکن کے مارے کمر کے بل لیٹ کر کلائی آنکھوں پر رکھ لی اور گزشتہ رات والے خواب کا سرا پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔پچھلے دو سالوں سے اس کا معمول تھا کہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا تھا۔اسے اپنا خواب نگر بہت عزیز تھا۔اس نگر کا وہ ایک ننھا منا سا شہزادہ تھا۔پر تعیش زندگی سے ہر سکھ پاتا تھا۔اس وقت بھی وہ اپنے کل والے نامکمل خواب کا سرا پکڑ کر نیا تانا بانا بننے لگا۔اس میں وہ ایک جاگیردار اور ملک کے معروف سیاستدان کا اکلوتا بیٹا ہے۔اس کے آگے پیچھے نوکر چاکر ہیں۔ اس کے پاس اچھے ،مہنگے اور عمدہ کپڑے ہیں ۔لیپ ٹاپ اور موبائل ہے۔انواع و اقسام کی گھڑیاں ہیں۔برانڈڈ جوتے ہیں۔عموماً سکول سے آ کر وہ بوٹ اتارے بغیر بستر پر دراز ہو جاتا ہے۔آج بھی وہ جوتے اتارے بغیر معمول کے مطابق اپنے گلابی رنگ و روغن والے کمرے میں گلابی اور نرم و گداز بستر پر دراز ہو گیا۔آوہ سکول سے آ کر جوتوں سمیت اپنے گلابی رنگ و روغن والے کمرے میں گلابی چادر والے بیڈ پر آرام سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا ۔
آیا معمول کے مطابق متحیر سی اندر آئی ’’ او بابا ! آپ آ گئے ۔لائیے میں آپ کے جوتے اتار دوں۔‘‘
وہ مکر سے آنکھیں بند کئے لیٹا رہا۔آیا جوتے اتار کر اس کا منہ دھلانے لے گئی۔پھر ڈائننگ ہال میں اس کے لئے کھانا لگا کر بصد اصرار کھلانے لگی۔اتنے میں اس کی ماما آئی۔اسے اپنے ہاتھ سے کھلاتے ہوئے کہنے لگی
’’ میری جان میرے بچے پیٹ بھر کر کھانا کھایا کرو۔دیکھو کتنے کمزور ہو تے جا رہے ہو۔صحت اچھی ہو تو بندہ بارعب بھی دکھتا ہے اور سوہنا بھی ۔‘‘
’’بالکل بابا کی طرح ‘‘ اس نے لقمہ دیا‘‘
’’بالکل تمہارے بابا کی طرح ۔آج تو میرا بچہ پیٹ بھر کے کھانا کھائے گا۔‘‘
’’روز تو کھاتا ہوں ۔‘‘
’’ کب کھاتے ہو دو چار نوالے لے کر چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
’’ جتنی بھوک ہوتی ہے اتنا ہی کھاتا ہوں مگر آج میں زیادہ کھاؤں گا کیونکہ چکن پلاؤ اور فروٹ سیلڈ ( ٖFruit salad)میرے فیورٹ ہیں۔‘‘
کھانے سے فارغ ہو کر کچھ دیر کے لئے سو گیا۔اس کے بعد ٹیوٹر اسے پڑھانے آیا۔آیا اسے جگانے آئی۔پیار سے اس کے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگی ’’ اٹھ جاؤ بابا ! بہت دیر سو لیا ۔باقی نیند رات کو پوری کرنا۔اس نے کسمسا تے ہوئے کہا ’’ آنی ! آپ تو سونے بھی نہیں دیتی ہیں ۔میں ماما سے آپ کی شکایت کر دوں گا۔‘‘
’’مجھے انہوں نے ہی بھیجا ہے۔اٹھ جاؤ۔‘‘
آیا کی منت سماجت کے بعد وہ اٹھا اور تازہ دم ہو کر استاد کے پاس گیا۔وہ بھی کوشش کرتا کہ اسے ہر بات پیار سے سمجھائے۔اس پر سختی کی کسی کو اجازت نہ تھی۔
پڑھائی کے بعد وہ ماں باپ کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔باپ نے پیار سے اسے اپنے پہلو سے لگا لیا۔اس نے بھی لاڈ لاڈ میں باپ کی جیب سے ہزار روپیہ نکال لیا۔اس نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا’ بہت فضول خرچ ہو گئے ہو۔‘‘اس کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔وہ گہری نیند سو گیا۔ہر روز سونے سے پہلے وہ اپنے اس خواب نگر میں ضرور جاتا اور آسودہ ہو کر سو جاتا۔
اسی رات دو ڈھائی بجے اس کی بیوہ نانی جو اپنے شوہر کی پنشن پر گزارہ کر رہی تھی بوکھلا کر اٹھی تو پسینے میں تر بتر ہو گئی ۔دونوں ہاتھ سو گئے۔ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بولی
’’ اسے تو گاڑی بھی گھسیٹ کر نہیں لے جاتی۔کتنا ڈراؤنا خواب تھا۔خدا خیر کرے ۔‘‘
اس کی معذور بیٹی اسے تسلی دینے لگی ’’خواب ،خواب ہوتے ہیں ۔انہیں اتنا سیریس نہیں لیتے ۔‘‘
’’ کیسے سیریس نہ لوں ؟ تم جانتی ہو میرے خواب صرف خواب نہیں ہوتے، اشارے ہوتے ہیں۔ مردود میری بچی کو مار مار کر ہلکان کر رہا تھا۔میرا جیدی بچانے آیا تو اسے بھی لہو لہان کر دیا۔کنجر کو صرف اپنے نشے کی پڑی رہتی ہے۔میں نے جیدی کے بعد اسے کہا تھا اور بچے پیدا نہ کر ۔ انہیں کھلائے پلائے گی کہاں سے ؟ ‘‘
تو کہنے لگی ’’ تجھ سے مانگنے نہیں آؤں گی ۔‘‘
غصہ تو اس کی ناک پر رہتا ہے۔ احتیاط نہیں کی اور گنواروں کی طرح چار بیٹیاں پیدا کر لیں ۔ کہتی ہے ’’جاوید میری جان ہے۔لائبہ کو تو میں اپنی آنکھوں سے دور نہیں کر سکتی۔عروسہ میرے جگر کاٹکڑا ہے۔اقصیٰ میرے کلیجے کی ٹھنڈک ہے۔عروہ میری آنکھوں کا نور ہے۔میں کسی کو نہیں چھوڑ سکتی۔
کتنی دفعہ کہا ہے ’’بے وقوفے چھوڑ انہیں ۔اس کی نسل ہے۔اس کافرض ہیں۔سنبھالنا پڑے گا۔روٹی پانی کی تنگی ہوگی تو خود کم کاج کرے گا۔‘‘
پر وہ تو اثر ہی نہیں لیتی۔وہ تو ایک پل ان کے بغیر نہیں گزار سکتی۔بدبخت قسمت بھی کیسی لکھوا لائی ہے۔رات دن گا لیاں سنتی ہے ۔مار کھاتی ہے۔پھر بھی اس چرسی سے چپکی ہوئی ہے۔ کتنی دفعہ کہا ہے چھوڑ دے اسے ۔
پھر وہ اس کی نقل کرتے ہوئے بولی ’’ طلاق نہیں لے سکتی ۔میری بیٹیوں کی زندگی اجیرن ہو جائے گی ۔ کوئی ان سے شادی نہیں کرے گا۔‘‘
’’بھلئیے لوکے ! تیری زندگی کونسا سکھی ہے ۔ تو نے کونسا سکھ دیکھاہے ۔ اللہ بخشے میری ماں کہا کرتی تھی ’’ خاوند تین قسم کے ہوتے ہیں
ایک کھسم ،دوسرا رسم اور تیسرا سینے کا زخم۔‘‘
’’ پتہ ہے کھسم کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں پتہ ماں‘‘ اس نے لاعلمی کا اظہار کیا
’’وہ جس کے پاس بیوی زندگی کے سارے سکھ پاتی ہے۔پیار ،قدر ،عزت اور سب کچھ ۔قسمت والیوں کو کھسم ملتا ہے۔بد بخت کو تو سینے کا زخم ملا ہے۔کوئی سکھ نہیں ملا بے چاری کو۔بیٹیوں کی فکر میں خود کو ہلکان کر رہی ہے۔چھوڑ دفعہ کر اسے۔‘‘
’’امّی وہ ٹھیک کہتی ہے ۔‘‘
’’ کیا خاک ٹھیک کہتی ہے ۔طلاق نہیں لیتی تو وہ مصیبت گاڑی کے نیچے ہی آ جائے ۔ٹانگیں ٹوٹیں اس کی ۔لنڈے سے پینٹیں لا لا کے پہنتا ہے اور بابو بن بن کے اتراتا پھرتا ہے ۔ ا ب تو اس لچے نے معصوم جیدی کو بھی سکول سے ہٹا لیا ہے۔بے چارہ پھول جیسے ہاتھوں سے مشقت کرتا ہے۔ جھوٹے برتن مانجھتا ہے ۔مگر وہ اس کی کمائی بھی نشے میں اڑا دیتا ہے ۔ کل تو میں ضرور ساہیوال جاؤں گی ۔اسے بتاؤں گی کہ ابھی اس کے وارث زندہ ہیں ۔ ‘‘
اس کے ساتھ ہی اس نے لان کا پرانا سا دوپٹہ جھولی کے انداز میں پھیلاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی
’’یا میرے مولا ! آج تو شب رات ( شبِ برات ) ہے ۔مجھ دکھیاری کی سن لے اسے اٹھا لے یا اس کمینے کونیک ہدایت دے ۔میں نے تو تیری رضا کی خاطر اپنے غریب بھائی کا منہ دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ میں ہاتھ تھمایا تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ ذلیل ہمیں جیتے جی مار ڈالے گا۔ یا رب العالمین ! اے میرے سوہنڑے رب اپنے حبیب ؐ کے صدقے اس دھرتی کے بوجھ کو اٹھا لے ۔میرے مولا ! آج کی رات کے صدقے میری دعا سن لے۔اسے اٹھا لے یا اس کی ٹانگیں توڑ دے ۔‘‘
اسی طرح دعا مانگتی مانگتی وہ سو گئی ۔صبح سویرے حلوہ پوری باندھ کے چیچہ وطنی سے ساہیوال روانہ ہوگئی ۔پرانے بوسیدہ سے مکان کے زنگ آلود دروازے کو کھٹکھٹانے لگی تو وہ خود بخود کھل گیا۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی بڑی تینوں نواسیاں جو زمین پر بیٹھی اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونوں سے کھیل رہی تھیں۔نانی آگئیں ۔نانی آگئیں کہتی ہوئیں نانی سے لپٹ گئیں۔زبیدہ بھی ماں سے ملنے لگی تو اندر سے پھیکے کی آواز آئی ’’ زبیدہ!زبیدہ!‘‘
ماں سے حال احوال پوچھنے میں وہ فوراً جواب نہ دے پائی تو حسبِ معمول غضب ناک آواز آئی ’’ زندہ ہے یا کہیں مر کھپ گئی ہے۔‘‘
’’ جی آئی ‘‘ کہہ کر وہ کمرے میں گئی تو وہ قہر آلود نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے بولا ’’ پہلی آواز تجھے سنائی نہیں دیتی کیا؟‘‘
دوڑ کے اندر آنے کی وجہ سے اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا اور نوٹ اس کے سینہ بند سے باہر جھانک رہے تھے۔پھیکے کی نظر اس کی چھاتی کے ابھاروں سے ہوتی ہوئی جیسے ہی ان پر پڑی ۔اس نے بھینچ کر منہ بند کرتے ہوئے اور تیوری پر بل ڈالتے ہوئے لپک کر اس میں سے نکالے اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارتے ہوئے چیخا ’’ حرامزادی !یہ کن یاروں سے مانگ کے لائی ہے ؟‘‘
جواب کا انتظار کئے بغیر وہ صحن میں نانی کے پاس بیٹھے جیدی پر جھپٹا ’’الّو کے پٹھے !مجھ سے جھوٹ بولا تھا تونے ۔اب دیکھ تیری کھال کیسے ادھیڑتا ہوں ۔‘‘ اس کے بعد اس نے گھونسوں اور مکوں کی اس پر بوچھاڑ کر دی۔نانی نے چھڑانے کی کوشش کی تو اسے بھی زور سے دیوار میں دھکیلتے ہوئے چلایا ’’ پیچھے مر بڑھیا ! اس سارے فساد کی جڑ ہی تو ہے ۔روز منہ اٹھا کے آ جاتی ہے ۔فسادن !ہمارے گھر کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش مت کرنا۔ورنہ تیری بھی ٹا نگیں توڑ کر چارپائی پر ڈال دوں گا۔‘‘
کچھ لمحوں کے لئے تو اسے کچھ سجھائی ہی نہ دیا ۔اس کا سر چکرا کہ رہ گیا۔اس دوران میں اس نے جیدی کی ٹھکائی جاری رکھی ۔تھپڑوں ،گھونسوں اور لاتوں کے ساتھ ساتھ زبان بھی مشتعل تھی ۔
’’ ماں کا یار !مجھ سے چھپا کے ماں کو دیتا ہے۔بے غیرت تیرے علاوہ بھی اس نے کئی یار بنا رکھے ہیں ۔بڑا ہمدرد بنا پھرتا ہے اس کا۔آئندہ ایسی حرکت کی تو زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔چل دور ہو میری آنکھوں سے۔‘‘
پھر بیوی پر انتقامی نگاہ ڈال کے باہر نکل گیا۔اس کے باہر نکلتے ہی ماں،نانی اور چاروں بہنیں روتی ہوئی اس کے قریب آ گئیں۔اس کی کمر کو سہلانے لگیں۔ ’’نیلو نیل کر گیا ہے۔‘‘ماں نے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
’’بیڑا غرق ہو ظالم تیرا۔تیرے ہاتھ ٹوٹیں ۔میں نے کتنی دفعہ کہا ہے چھوڑ اس دلے کو چل میرے ساتھ روکھی سوکھی تو میں تجھے کھلا ہی لوں گی اور جیدی تو اس کتے کے منہ میں ہڈی ڈال دیا کر۔ورنہ یہ روز تیری ہڈیاں توڑتا رہے گا۔میری ماں صحیح کہا کرتی تھی خدا بیٹی دے تو اس کے نصیب میں کھسم لکھا کرے سینے کا زخم نہیں۔یہ بدذات سینے کا زخم ہے۔تمہا ری اور ان بچوں کی مجرم میں ہوں۔
مجھے معاف کر دو۔
وہ جس نے خاموشی سے ’’ لیتر پولا ‘‘ کروایا تھا سسکتے ہوئے بولا ’’ ابّا کو پولیس پکڑ کے کیوں نہیں جاتی؟‘‘