’’ وطینت کا محدود تخیل نوع انسانی سے عام اور ہمہ گیر مُحبت کا کفیل نہیں ہوسکتا ۔ میں بین الاقوامیت کا حامی ہوں اور کائنات کیلئے اِسے ضروری سمجھتا ہوں‘‘۔
میر یوسف عزیز مگسی
بلوچستان جدید ،یکم مارچ1934
انسانی معاشرے میں کسی بھی بڑے انسان کا نمودار ہونا اُس دور کے حالات وواقعات کی تدریجی تبدیلیوں سے ہوتا ہے ۔ یہ عظیم انسان اپنے پیشرؤں کے علم ودانش سے استفادہ کر کے اپنی معاشرتی زندگی کو علمی انداز میں سمجھنے پر کھنے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات اور رونُما ہونے والے واقعات کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاشرے کے مختلف طبقات کا جائزہ لے کر اُن کے غموں اور خوشیوں کو نہ صرف اپنے فکر میں پروتے ہیں ، بلکہ عملی طو ر پر اُن کی زندگی کو بدلنے معاشرتی زندگی میں بنیادی وکیفیتی تبدیلی لانے کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔
انسانی محنت کی تقسیم ہی سے عظیم فلسفیوں اور مفکروں نے ایک خوشحال وغیر طبقاتی معاشرے کی تشکیل کیلئے جدوجہد کو اُبھارا ۔ استحصال سے پاک سماجی ، اقتصادی نظام کی تشکیل کی ۔اس عالمگیر اجتماعی جدوجہد کے قافلے میں دیگر خطوں کے دوش بدوش بلوچستان بھی شریک سفر رہا ہے ۔
بیسویں صدی انسانی معاشرتی زندگی میں کیفیتی وبنیادی تبدیلیوں کی صدی کے نا م سے جانی جاتی ہے ۔ سوویت یونین میں برپا ہونے والی عالمگیر تبدیلی نے کُرہ ارض کے وسیع حصے کو متاثر کیا۔ سامراج دشمنی کی لہر نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ۔ کُرہ ارض کا دوتہائی حصہ انقلابات کا پیش خیمہ بنا ۔ اِس انقلابِ زمانہ نے بلوچستان میں اٹھارویں صدی سے جاری روایتی ، قبائلی مزاحمت کی جگہ قومی جمہوری خدوخال کے ساتھ سیاسی، معاشی وتنظیمی جدوجہد کو اُبھارا جس کا سہرا میرعبد العزیز کُرد و میر یوسف عزیز مگسی کے سر جاتا ہے ۔
عین عالم نوجوانی میں میر یوسف عزیز کی اتفاقی رُحلت کے بعد بیسویں صدی کی تیسری دھائی کے اواخر میں میر غوث بخش بزنجو نمودار ہوئے اور جلد ہی یوسفی قافلے کے میر کاروان بنے ۔ جس نے بیسویں صدی کے اواخر تک انتہائی دانش مندی اور مدلل انداز سے یوسف عزیز کے بوئے ہوئے نظریات کو پروان چڑھایا۔ میر غوث بخش بزنجو نے میر یوسف عزیز کے افکار سے جدلی وحدت رکھ کر زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ وقت وحالات کے مُطابق انہیں آگے بڑھایا۔
میر یوسف مگسی اور میر غوث بخش بزنجو کی خاندانی حیثیت ، افکار اورجدوجہد میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ دونوں بلوچ اشرافیہ کے گھرانوں میں پیدا ہوئے ۔ میر یوسف عزیز کے بقول ’’انہیں باقاعدہ تعلیم سے محروم رکھا گیا جس طرح قدامت پسند رئیسوں کا شیوہ ہے ۔ کہ اُن کی اولاد کو ملازمت تھوڑی کرنی ہے ۔ اسلاف کی روایات اور طرزِ معاشرت کے لیے انگریزی تعلیم مضر ہے ۔ خطرناک ہے ۔ احباب کے مجبور کرنے پر انہیں لکھنے پڑھنے کی حد تک گھر میں تعلیم دی گئی ‘‘۔ لیکن زمانے کی رفتار اور حالات وو قعات نے انہیں وہ کُچھ سکھایا ‘ جس نے انہیں شاہراہ جدوجہد پر لاکھڑا کر کے ایک عظیم مفکر کے طو ر پر پیش کیا۔
میر یوسف عزیز مگسی بلا کے ذہین اور خُدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ بچپن ہی سے سماجی صورت حال ملکی وبین الاقوامی حالات وواقعات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وجوہات ونتائج کا علمی انداز سے جائزہ لیتے تھے ۔ اِسی تجسس جذب واثرنے یُوسف کو شاہراہ جدوجہد کی طرف مائل کردیا ۔ اُس دور میں سوویت انقلاب نے دنیا بھر کے مظلوم طبقات اور محکوم اقوام کی تحریکوں میں نئی روح پھونک دی تھی ۔ انگریزوں کے خلاف ہندوستان بھر سیاسی تحریکیں اپنی اُٹھان پر تھیں۔ اسی دور میں یوسف عزیز قبائلی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی تحریکوں میں بھی شرکت کرنے لگا ۔ اور ان تحریکات میں بہ نفس نفیس شریک ہو کر اُن سے استفادہ حاصل کرتا رہا ، اور بالآخر بلوچستان میں سیاسی ہلچل پید ا کرنے کے لیے اپنا پہلا مضمون لکھا ۔ جو مساوات (لاہور) کے 17نومبر1949کے شمارے میں شائع ہوا۔
میرغوث بخش بزنجو باقاعدہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے ۔ نال سے علی گڑھ یونیورسٹی تک رسائی حاصل کی۔ علی گڑھ کے ہی دنوں میں میر غوث بخش بزنجو کی قربت ترقی پسند نوجوانوں سے ہوئی ۔ جن کی صحبت میں رہ کر انہوں نے سماجی علوم اور سیاست کے ابجد سیکھے ۔ ملکی وبین الاقوامی حالات ووقعات کا گہرا مطالعہ کیا۔ علی گڑھ سے واپس آئے تو سیاست کے بنارہ نہ سکے۔ کراچی میں انجمن ’’اصلاح بلوچاں ‘‘ نامی تنظیم میں شامل ہوئے۔ 1939میں مستونگ میں منعقد ہونے والے ’’قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی‘‘ کے کنونشن میں انجمن اصلاح بلوچاں کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی ۔ یہاں کے حالات وواقعات دیکھ کر نیشنل پارٹی کے ہوگئے۔
میر یوسف عزیز مگسی ومیر غوث بخش بزنجو وطن پرستی ووطن دوستی، قوم پرستی و قوم دوستی میں واضح فرق سمجھتے تھے ۔ وہ پرستش کے اِن رُحجانات کو قومی اشرافیہ کے مفادات کا ترجمان گردانتے تھے جوتنگ نظر قوم پرستی،مہاقوم پرستی ونسل پرستی کے اِن رحجانات کو قومی اشرافیہ وبالائی طبقات کی محدودیت کے نظر یئے سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں قومی جدوجہد میں ضرر رساں خیال کرتے تھے۔
دونوں قوم دوستی ووطن دوستی کے نظریات کے قائل تھے،جو قومی تحریکات میں وسیع النظر فکر سے ہم آہنگ قوموں کی یکجہتی وبین الاقوامیت کے نظریئے کے فروغ کا باعث ہے اور جو اشرافیہ کی قوم پرستی کے برخلاف دیگر قومی تحریکات اور نچلے وکُچلے ہوئے طبقات کی جدوجہد سے منسلک ہے ۔
میر یوسف عزیز مگسی سیاسی و قومی جدوجہد کے ساتھ ساتھ زبان ، نسل ، علاقہ و ذات پات سے بالاترمزدور فکر سے بھی وابستہ رہے ۔ وُہ مزدور طبقے کو ہی انقلابی طبقہ تصور کرتے تھے ۔ یوسف عزیز نے اس انقلابی طبقہ کو بلوچستان میں وجود میں لانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی۔ انہوں نے معاشی وسیاسی جدوجہد کے پلیٹ فارم پر انہیں اپنے ایجنڈے میں سر فہرست رکھا اور اُس کے وجود کو جدوجہد کے لیے ضروری گردانا۔
میرغوث بخش میر یوسف عزیز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دور میں سیاسی وجمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ مزدور تحریکات سے بھی وابستہ رہے۔ اُن کے استحصال ، ظلم وجبر اور معاشی وسیاسی حقوق کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ۔ وہ قومی ، سیاسی ومعاشی جدوجہد کو محنت کش طبقات کی جدوجہد سے منسلک سمجھتے تھے۔ وہ کسی بھی سیاسی جدوجہد کو محنت کش طبقات کی شراکت داری کے بغیر بے معنی، بے سُود اور بے بھرم تصور کرتے تھے۔
میر یوسف عزیز مگسی کسی بھی سماج میں بنیادی وکیفیتی تبدیلی لانے کے لیے اُس سماج کے مختلف ستونوں پر استادہ بالائی ڈھانچہ کے خدو خال کاجائزہ ضروری گردانتے تھے ۔ انہوں نے بلوچ سماج کے اندر زندگی بسر کرنے والے نچلے طبقات کا عملی انداز سے جائزہ لیا۔ اُن کے غم وخوشیوں ، مشکلات وضرورتوں کا ادراک کر کے اُن کے معاشی بہبود کو اپنی قومی جدوجہد کے ساتھ جدلیاتی طور پر مربوط رکھا۔ اُن کی زندگی بدلنے کے لیے اُن کی مشکلات کو اپنی قومی انجمن کے منشور میں اولیت دی ۔ اُن کی صف بندی کی کوششیں کیں، مختلف ذرائع سے اُن کے معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند کی ۔ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ معاشی تبدیلی ہی سماجی انقلاب کی بنیاد ہے ۔ اس نے بلوچ سوسائٹی کو چلانے والے قوانین کا ادراک کر کے انہیں اپنی جدوجہد کا محور بنا دیا۔
میر یوسف عزیز نے اپنے عوام کی معاشی زندگی سُدھارنے کے لیے عظیم معاشی منصوبے بنائے اور انہیں اپنے ہی ذاتی خرچ سے عملی جامہ پہنایا ۔عوام کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے کیر تھر نہر کی تعمیر کی ، اپنے ہی جائیداد پر زرعی اصلاحات نافذ کرکے غریب وبے زمین کسانوں کو زمینیں دیں۔ عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے روزگار کے حصول اور ملوں کی تعمیر کو اپنی تنظیمی جدوجہد میں سر فہرست رکھا۔
میر یوسف عزیز کی طرح میر غوث بزنجونے بھی سماجی تبدیلی کے لیے معاشی سیاسی ونظریاتی جدو جہد کو اہمیت دی۔ یوسف کی طرح میرغوث بخش بزنجو بھی معاشی جدوجہد کے کلیدی کردار سے باخبر تھے ۔ انہوں نے بھی یوسف کی پیروی کر کے اپنی جدوجہد کو امتیازِ بلارنگ ، نسب ونسل ، علاقہ بھر کے مزدوروں کی جدوجہد سے مربوط رکھا۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کے چوٹی کے کئی رہنما میر صاحب کی پارٹی سے وابستہ رہے ۔
میر یوسف عزیز مگسی سیاسی جدوجہد کو ہر قسم کے ظلم وجبر و استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے شعوری طور پر عوام کی وسیع اکثریت کے ساتھ اقتدار پر غالب آنے کی جدوجہد تصور کرتے تھے ۔وہ سیاسی جدوجہد کے اُن داؤ پیچ سے بھی واقف تھے جو محضوص حالات میں قابلِ اطلاق اور عوامی مفادات سے ہم آہنگ تھے ۔ یوسف کے ساتھ بلوچ سیاسی دانشوروں کی ایک بڑی کھیپ تھی جن کی وجہ سے وہ قلیل مُدت میں انتہائی برق رفتاری کے ساتھ کامیابیوں کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے عوام کی قومی وطبقاتی مفادات کی ترجمانی کرتے رہے۔
میر یوسف عزیز کی طرح میر غوث بخش بزنجو بھی قومی وطبقاتی نا برابری، ظُلم واستحصال کے خلاف بدلتے وقت، اور ومخصوص حالات میں قابل اطلاق سیاسی جدوجہد کے طریقے آزماتے رہے ۔ میرغوث بخش بزنجو اپنے دور میں دیگر جمہوری قوتوں کے اشتراک سے جمہوری جدوجہد میں ایک لچکدار سیاسی رہنماء کی حیثیت سے اُبھرے اور کاروانِ جمہور کے روحِ رواں ٹہرے۔
میر یوسف عزیز مگسی اپنی مختصر سی زندگی میں کسی نظریاتی سٹڈی سرکل سے فیض یاب نہیں ہوئے تے۔ لیکن خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ارتقاء کے فلاسفی سے باخبر تھے ۔ وہ جو ہرکی اندرونی کشمکش اور بیرونی تضادات کے باہمی اشتراک سے ارتقاء کے نشو ونما کو سمجھتے تھے ۔ انہوں نے معاشی وسیاسی مُشکلات ومظاہر کا علمی انداز سے ادراک کر کے انہیں ٹھوس بنیادوں پر اُبھارا۔
میر یوسف عزیز مگسی اوراُن کے رفقا ء کا ر جو قومی اور جمہوری نظریہ رکھتے تھے۔ جنہوں نے پسماندہ بلوچ سماج میں قومی ریاست کے قیام کے لیے سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ اقتصادی آزادی کو مربوط رکھا ، وہ استعماریت سے اقتصادی آزادی کو سیاسی اور ماقبل جاگیر دارانہ رشتوں کے خلاف سماجی تبدیلی کی محرک قوتوں مزدوروں ، کسانوں اور محنت کش عوام کے دیگر حصوں کو باہم مربوط کر کے اور اُن کی زندگی کے مسائل ومشکلات کو اپنے اغراض ومقاصد میں سرِ فہرست رکھا اور ان مقاصد کے حصول کے لیے سخت جدوجہد کو اپنا نصیب العین بنایا۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بلوچ معاشرتی ساخت کے لحاظ سے بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی ہلچل براہِ راست محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں نہیں تھی ۔ لیکن محنت کش طبقے سے قربت رکھنے والے درمیانی طبقہ کے دانشوروں نے اس سیاسی جدوجہد کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لی تھی۔ حالانکہ بلوچ سماج میں طبقاتی تضادات کی گہری جڑیں وجود رکھتی تھیں اور محنت کش طبقہ نشوونما کے ابتدائی مدراج سے گزررہا تھا جس کے مفادات کی فرائضِ منصبی درمیانہ طبقہ سرانجام دے رہا تھا۔ اس جدوجہد کے خدوخال بلوچ عوام کی اِس قومی جمہوری جدوجہد میں طبقاتی مافیہ نمایاں تھا، جو مطلق العنانیت ، جاگیر داریت ، سرداریت ،سامراجی سیاسی واقتصادی غلبے اور استحصال کے خلاف ہونے والی قومی جدوجہد پر چھایا ہوا تھا۔
بلوچ عوام کی یہ قومی جمہوری جدوجہد سامراجی مفادات کے آلہ کار مطلق العنان سرداریت اور برٹش استعماری نو آباد یاتی سیاسی ومعاشی غلامی کے خلاف تھی ۔ میر یوسف عزیز نے فنی اقتصادی اور ثقافتی ترقی کا بند راستہ کھولنے کے لیے اپنی قومی جدوجہد کو بر صغیر کی سامراج دشمن جدوجہد کے ساتھ باہم مربوط کر کے پیش قدمی کی ۔ جس کے باعث بلوچ قومی تحریک کے خدوخال سامراج دشمنی ، جاگیر دار دشمنی اور سردار دشمنی کے اہداف کے ساتھ واضح اور نمایاں نظر آنے لگے اور انتہائی برق رفتاری کے ساتھ پھلنے پُھولنے لگے۔
میر غوث بخش بزنجو نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران میر یوسف عزیز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان اہداف کو مشعل راہ بنایا۔ میر غوث بخش بزنجو کے نظریات کے مطابق ہی اہداف قومی جمہوری انقلاب کے ہیں ، جو سرمایہ تصوارانہ ترقی کے مدارج کو عبور کرنے کا فارمولا اور سماجی تبدیلی کی سائنس ہے جس کو رُو سے ایک قوم یا ملک ترقی کے غیر سرمایہ دارانہ راہ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ میر غوث بخش بزنجو قومی جمہوری انقلاب کی کامیابی کو محنت کش طبقات کی تنظیم ، اتحاد اور اُن کی نظریات پر کار بند قومی جمہوری پارٹی کی فعالیت سے منسلک سمجھتے تھے ۔
اُن کے نظریات کے مطابق سماجی تبدیلی کے لیے غیر سرمایہ دارانہ راستے کا تعین اقتدار پر قابض محنت کش طبقات کے نظرئیے سے لیس سیاسی قوت ہی کرسکتی ہے۔ اگر اقتدار کی ڈوری قومی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں چلی گئی تو ایسی صورت حال میں غیر سرمایہ دارانہ تبدیلی نا ممکن سی بن جاتی ہے۔
میر غوث بزنجو قومی اور جمہوری ریاست کے قیام کو قومی جمہوری جدوجہد کی ابتدا ء تصور کرتے تھے ، جس کی بدولت قومی خود مختاری ، سماجی آزادی اور معاشرتی ترقی بنیادی اور کیفیتی تبدیلی کے اُن راستوں کے در کھولتے ہیں ، جہاں حقیقی سیاسی آزادی ، سماجی مساوات ، جدید نو آبادیاتی نظام اور سامراجی لوٹ کھسوٹ سے نجات،رجعتی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی شکست اور عوام کی پُر مسرت خوشحال صبحِ نو کی نوید سناتے ہوئے انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
میر غوث بخش بزنجو کے مطابق یہ سماجی تبدیلی اُس وقت ممکن ہے جب مزدور ، کسان ، کھیت مزدور، درمیانہ طبقات، جھوٹی قومیتوں کے جمہوری عناصر ، جمہوریت پسند ، محبِ وطن اورسامراج دشمن قوتوں کے ایک وسیع محاذ کی تشکیل عمل میں لائی جائے اور اسی وطن دوست ، ترقی پسند قوتوں کے وسیع ترمتحدہ محاذ ہی کی جدوجہد کی بدولت سامراجی اثر ونفوذ اور سرمایہ دار ملکوں کے بین الاقوامی اجارہ داریوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اقتصادی انحصار کا خاتمہ ممکن بن سکتا ہے اور سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ رشتوں سے جان خلاصی ، عوام کو مساوی حقوق اور قومیتوں کو خود مختاری ، خارجہ پالیسی میں ترقی پسند ملکوں سے سیاسی ، معاشی اور ثقافتی تعلقات میں مضبوطی ہی سے ترقی کے غیر سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت مل سکتی ہے جس سے قومی اور جمہوری ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔