گلدستہ قلات:۔
۔133 صفحات پر مشتمل ’’گلدستہ قلات‘‘ غزلیات ، قطعات ورباعیات کاجن کاانتخاب نبیرہ ملامحمد حسن خان ، میر شیر علی خان بنگلزئی نے بڑی محنت ، مشقت اور عر ق ر یزی سے کرکے انہیں ترتیب دیکر اسے ایک مجموعہ کی صورت دیدی اور جسے مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان نے شائع کی ہے ( جس کی ایک کاپی برادرم لطف علی صاحب نے 9فروری 1991 کوراقم کو مرحمت کی تھی)۔ یہ کتاب غالباً19جون1973ء کو شائع ہوئی ہے ۔
اس کتاب میں تاریخ شہادت خان مہراب خان کے زیر عنوان ایک نظم بھی شامل ہے ۔ جس کے آخر میں ایک رباعی کی صورت میں مہراب خان کی شہادت کی تاریخ بیان کی ہے ۔
رومانوی شاعر:۔
ملامحمد حسن اپنے محبوب کے حسن کی تعریف یوں کرتے ہیں :
آن روی نازنین کہ بروں ازنقاب شد
مہتاب شد، ستارہ شد وآفتاب شد
بر ہر لبی کہ آب زلال لبش رسید
زم زم شدو حیات شد وخود شراب شد
ہر قامتی کہ دل بہ قد وقامت تو داد
نی شد چوشک شد ہمہ تار ربا ب شد
گویا کہ شد زبان حسن بہر گلرخان
کاغذ شد وقلم شد وصاحب کتاب شد
حسنیا
ملا محمد حسن کی پندو نصائح کی یہ کتاب بلبل شیراز حضرت شیخ مصلح الدین سعیدی ؒ کے قطبع میں تحریر کی گئی ہے ۔ شیخ سعدی کے کریما کی فکر اور انداز بیان کے اثرات اس کتاب میں نمایاں ہیں ۔
۔82 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اختر علی بنگلزئی نے بڑی تحقیقات کے بعدترتیب دیکر قارئین کیلئے مئی 2010 ء میں شائع کروائی ۔ جو اردو ترجمے کے ساتھ مرتب کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے ۔
’’ میر محمد حسن خان بنگلزئی کی حسنیا ( تحقیق : اختر علی بنگلزئی ، مترجم محمد اکبر رئیسانی) کادیباچہ توانا ، جاندار اور دلکش ہے ۔ اسلوب بیان نہ صرف قابل توصیف بلکہ قاری کے دل ودماغ کو اپنی گرفت میں ایسے لے لیتا ہے کہ وہ اسی کاہوجاتا ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر صاحب مزید تحریر کرتے ہیں ۔
’’حسنیا کو ایک بار قاری ہاتھ لگائے تو سہی پھر ختم کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ اس کی زبان وبیان کی چاشنی اسے اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے ‘‘
اس کتاب میں حمد باری تعالیٰ ، نعت سید المرسلین ؐ اور وصف ا صحابؓ کے بعد ، ہدایت سے لبریز صراط مستقیم سے ہٹانے والی برائیوں جیسے طمع ، حرص وہوس ، کنجوسی و بخل، تکبر ، ظلم وزیادتی ، اور جھوٹ وفریب سے اجتناب کی تاکید کی گئی اور اس کے برعکس علم وعمل ، خوش اخلاقی مہمانداری، سخاوت ، کرم نوازی ، تواضع ، عدل وانصاف ، عبادات واطاعت ، صبر اور سچائی کی فضیلت سے آگاہی دیکر انہیں اپنانے کی تلقین کی گئی ہے ۔
ان کی اپنی تحریر کردہ دیباچے میں ملا محمدحسن خان ، حضرت شیخ سعدی کے اس شعر کے ساتھ دیباچے کااختتام کرتے ہیں ۔ ملا محمد حسن لکھتے ہیں:
بماند سالہا این نظم ترتیب
زما ہرزرہ است کزما یاد ماند
کہ ہستی رانمی بینم بقائی
مگر صاحب دلے ر وزی برحمت
کند درحق این مسکین دعائی
ترجمہ : ’’ یہ بندہ (محمد حسن) لکھنے کی جسارت کرتا ہے کہ یہ عمر عزیز سدا نہیں رہیگی ۔ ہم نے ملک عدم جانا ہے ۔ متقی اور پرہیزگار لوگوں پر اللہ کی رحمت ہو ۔ اور اگر کبھی میں(محمد حسن) یادآجاؤں تو پھر میں مسکین وعاجز آپ سے دعا کاطالب ہوگا۔‘‘( ترجمہ)
براہوئی کلیات:۔
دستیاب براہوئی کلیات نوے صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اٹھاون غزل حضرت علیؓ کی شان میں ہیں ۔
میر رحیم داد مولائی شیدائی نے اپنے ایک مضمون ’’براہوئی ادب ناشاندار ماضی‘‘ میں ملا محمد حسن کے براہوئی قصائد کاذکر کیا ہے ۔
انگریز سامراج کے خلاف اور اس سے نفرت اور اس کی مذمت میں ملا محمد حسن نے براہوئی میں جو اشعار کہے ہیں وہ ان کی قومی جرات کامظہر ہیں ۔
پرنگی خیسنا گوفوجے
دٹ تاڈیڈو نا فوجے
نی پادر یا ونا موجے
کرینے مون سراوانا
قلات نا میری ؤ خانا
بلوچ نا بڑزنگا شانا
پرنگ سردار اسیراتے
بلوچاتا حقیر اتے
بہاٹ ہلک دانچیراتے
کرے اوفتے جتا خانان
ترجمہ : ۔
’’انگریز سرخ گو ح کی طرح ہیں
اس کے ساتھ گھورکھا فوج دریا کے
موجوں کی طرح بڑھتی چلی آرہی ہے
ان کارخ سراوان کی طرف ہے
بلوچوں کی عزت وناموس قلات کے قلعے اور خان پرحملہ کیا
فرنگی نے سرداروں اور امیروں کو خرید لیا
یہ حقیر اور ذلیل سردار بلوچ کے لئے باعث شرم ہیں
انگریزوں نے سرداروں کو خان سے جدا کرکے
ان کادین وایمان خرید لیا ہے
ان کو شہیدوں کے بلند مقام
اور شان وشوکت سے محروم کیا ہے ۔

ایک اور براہوئی کے چند اشعار :۔
توتا کو چمڑیکو
ہرباغ ٹی پری کو
زنان ومجلیسکو
استے ننا ظالم نی دریس
دنتا کو ج واہریا
لباکو کاغذیا
خنک نا گرسیا
بامس ناخنجریا

استے ننا ظالم نی دریس
رفتار مورداری
چم ہائے حورداری
یارلفورداری
استے ننا ظالم نی دریس
رفتار کفتراتہ
آواز کپینجر اتہ
خواننگ نا بلبلاتہ
استے ننا ظالم نی دریس
محمد حسن خنانے
محمد حسن شکر شپادے

استے ننا ظالم نی دریس
بسن نادریا
شہزادہ شاہ پریا
طوق اے ناز رگریا
استے ننا ظالم نی دریس
ترجمہ :۔
توت اور خوبانیوں کے د رخت ہیں
ہر باغ میں پریاں ٹہل رہی ہیں
عورتیں محافل جمائے بیٹھی ہیں
اے جفار کار تم نے تو میر ادل موہ لیا

ہمارا جسم چور چور ہوگیا
ہم رات بھر کروٹ بدلتے رہے
( اس لئے ) رات کو آرام سے نہیں سوسکے
اس کے برعکس تم نے تو
مزے سے اپنی نیند پوری کرلی
جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا

تیرے دانت موتی جیسے سفید ہیں
تیرے ہونٹ کاغذ جیسے پتلے
تیری آنکھیں نرگس کی طرح خوبصورت ہیں
تیری ناک ستواں ہے
جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا

تم مور کی طرح مٹک مٹک چلتے ہو
تمہاری آنکھیں حور کی طر ح ہیں
رقیب بزدل ہے ( وہ تمہاری ادا اور نظرکے سامنے نہیں ٹہر سکتا)
اے جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا

تم جنگلی کبوتر کی طرح تیز روہو
تمہاری آواز تتر کی طرح ہے
جب تم پڑھنے لگتے ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بلبل گا رہا ہے
اے جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا

اے شیریں لب محمد حسن نے تمہیں دیکھ لیا ہے
اور اس قدر محو ہوگیا کہ بر ہنہ پا چلنے لگا
اے جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا

تیرے درپر آئے ہیں
اس شہزادی شاہ پری کی محفل میںآئے ہیں
جس کا ہار مطلا ہے
اے جفا کار تم نے تو میرا دل موہ لیا
بلوچی اشعار
ملا محمد حسن کا بلوچی دیوان بھی ہے جوتاحال زیوراشاعت سے آراستہ نہیں۔
ملا محمد حسن کے شعری دفتر کامطالعہ کرتے ہوئے کہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے عہد کے واقعات ومسائل سے کسی بھی طورپر آنکھیں بند کی ہیں ۔ ان کی ذاتی بصیرت نے ان کے نجی احساسات کو بھی بزم آشنا کیا ہے ۔یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ انہیں اپنے وطن اور قوم سے عشق کی حد تک محبت تھی ۔ اس نے خان مہراب خان کی شہادت پر اپنے ایک طویل بلوچی نظم جو 54 اشعار پر مشتمل ہے جس طرح شدت سے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے یہ امر واضح ہوتاہے کہ انہیں اپنے وطن سے والہانہ محبت تھی اور وہ خان کے وفادار تھے ۔
۔1854ء میں چند عاقبت نااندیش سازشی درباریوں، کینہ پروروں اور حاسدوں کو ملا محمد حسن کی خان سے ا نتہائی رفاقت وقربت راس نہ آئی ۔ چنانچہ انہوں نے محلاتی سازشوں کے ذریعے خان نصیرخان کوملا محمد حسن کیخلاف اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ ملا محمد حسن خان کی حکومت کاکایہ پلٹ دینے کے د رپے ہے۔ چنانچہ خان قلات نے ملا محمد حسن کو پس زندان رکھ دیا ۔(لالہ ہتورام1987 صفحہ نمبر357)
ملا صاحب کے دو بارہ جیل جانے کی وجہ یہ ہے کہ انگریز سلطنت قلات کے سر بستہ راز معلوم کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن چونکہ ملاصاحب قر آن پاک پر عہدنامہ لکھ کر دے چکے تھے ۔ انہوں نے اس کاپاس رکھتے ہوئے وفاداری کاثبوت دیا ۔ لیکن انگریز اس کانٹے کوجو ان کی راہ میں حائل تھا ، ہٹانا چاہتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے ملا صاحب کے خلاف سازش کی اور انہیں جیل بھجوادیا ۔
(بلوچی دنیا۔ اکتوبر1990صفحہ 18)
ملا محمد حسین کو گرفتار کرکے سکھر( سندھ) لے جاکر بطور سٹیٹ پر زنر قید کیا ۔ اس کے گھر کی تلاش لی گئی اور جس قدر مال ودولت سونا چاندی اور جواہرات اس کے گھر سے برآمد ہوئے سب کو انگریزوں نے ضبط کیا۔
( بحوالہ گل خان نصیر تاریخ بلوچستان جلد اول صفحہ247)
ملا محمد حسن اپنی اعلیٰ انتظامی قابلیتوں اور علم وادب اور شعر وسخن کی بزم آرائیوں کی وجہ سے اپنے ہم عصروں کے دلوں میں کھٹکتے تھے ۔ اس لیے اُسے اپنی راہ سے ہٹانے کے لئے جیل میں ڈال دیا۔ وہ دوسال جیل میں رہے مگر انگریز سامراج کی اس سے تشفی نہ ہوئی۔ تب ایک سازش کے تحت انہیں جیل میں زہر دیکر ۵ رمضان ۱۲۷۲ ھجری کو شہید کردیاگیا۔( حسنیا صفحہ نمبر )
اور یوں ملا محمد حسن اسی برس کی عمر میں اپنے پیچھے سات اولاد سمیت ا ردو ، بلوچی ، براہوئی اور فارسی کے ہزاروں ادیبوں کو خیرباد کہہ کر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے لیکن ہماری دلوں میں ہمیشہ کے لئے اپنا مسکن بناگئے ۔اور اپنے اس شعر کے عملی تفصیل ثابت ہوئے۔
خود ہی خود ہمہ کم کردہ خود نمائی کن
تو خود نمائی خود گم کن وخدائی کن
ببین تو منصب آں زاہد ریائی را
گزار وسوسۂ نفس وبادشاہی کن
بہ پابی دارتنت رامیاں نار افگن
بہ سوزخاک خود اکسیر کیمیائی کن
حسن ؔ سرت بکف پابی یارخود بگزر
بغیر یار تو ازغیر او جدائی کن
ملا محمد حسن 1833 میں وزیر مقرر کیا اور اس وزیر باتدبیر نے ان تمام غلطیوں اور ناراضگیوں کے ازالے کے لئے کوششیں شروع کردیں جو داد محمد کے ہاتھوں سرزد ہوئی تھیں ۔ اور قوم کو ایک لڑی میں دوبارہ پرونے کیلئے اپنی جدوجہد شروع کی ۔ جس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناکر وطن کے خلاف چاروں اطراف لاحق خطرات کو نبرد آزمائیاں شروع کیں ۔ اس دور میں برطانوی حکومت نے شاہ شجاع کی امداد کیلئے اس کے ساتھ افغانستان فوج بھیجنے کاارادہ کیا ۔ مگر خان مہراب خان اور وزیراعظم ملا محمد حسن کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک ہمسایہ اور دیرینہ برادر اسلامی مملکت کے خلاف انگریز کا ساتھ دے ۔ اس سلسلے میں لیفٹیننٹ لیچ کی سربراہی میں جو وفد قلات آیا تھا ، وہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گیا ۔
اسی طرح جب شاہ شجاع سرڈبلیو میگناٹن اور انگریزی فوج کے ہمراہ سندھ میں آ یا تو میر مہراب خان نے اپنے وزیراعظم ملا محمد حسن خان کوبطور سفیر جیکب آباد بھیجا ۔ ملا محمد حسن خان نے ان سے مذاکرات کے بعد خان میر مہراب کو اس گفت وشنید کی رپورٹ پیش کی ۔ مگر خان صاحب انگریزوں کی پیش کردہ شرائط پر آمادہ نہ ہوئے ۔ اس کے بعد سر الیگزینڈر بارنس انگریزوں کے سفیر کی حیثیت سے قلات آئے اور خان صاحب سے کہا کہ وہ کوئٹہ جاکر شاہ شجاع سے ملیں ۔ اور ہمیں یقین دلائیں کہ وہ افغانستان کے ساتھ جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں ۔
یوں ایک معاہدے پردستخط کرکے ، خان نے کوئٹہ جانے اور شاہ شجاع اور انگریز لشکر سے ملاقات کرنے سے اجتناب کیا ۔ اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ۔ مگر انگریزوں کے ایجنٹ جو خان کے دربار میں کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے ۔ اپنے اصل آقاؤں کی بے عزتی برداشت نہ کرسکے اور ایک سازش کے تحت کوئٹہ واپسی سے قبل راستے میں بارنس کو لوٹ کر روپیہ پیسہ اور معاہدے کامسودہ بھی لوٹ لیے ۔
انگریزچونکہ ویسے بھی قلات پر حملہ کے لئے کوئی بہانہ چاہتے تھے ۔ چنانچہ خان کا بذات خود کوئٹہ نہ آنا اور پھر بارنس کی بے عزتی سے انہیں ایک جواز مل گیا ۔ اس طرح 13 نومبر1839 ء کو اچانک سرزمین بلوچ پر چڑھ دوڑے جبکہ موسم سرما میں لوگ کچھی اور سندھ کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے ۔ خان نے اپنے تین سو افراد پر مشتمل لشکر کے ذریعے دشمن کے ساتھ ہزار سے زائد فوجی کامقابلہ کیا ۔ اور انگریز کی کئی فوجیوں کوتہ تیغ کیا ۔
تاریخ خوانین قلات صفحہ72-73
آخری ایام:۔
اور جب 6نومبر1839ء کو انگریزوں نے خان قلات میر مہراب خان پر فوج کشی کی اور میری قلات کو محاصرے میں لیکر توپوں سے قلعے کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے اورخان سے دو بدو جنگ لڑی تو اس دوران دیگر لوگوں کے علاوہ ملا محمد حسن اورا س کے خاندان کے کئی دوسرے افراد بھی شامل جنگ تھے ۔ جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ ا س دفاعی جنگ میں خان مہراب خان کے ساتھ ملا محمد حسن کے بھانجے میر رضا محمد، میر عبدالکریم رئیسانی ، میر داد کریم شاہوانی ، شباغاسی نور محمد ، میر ولی محمد شاہی زئی مینگل ،شاغاسی تاج محمد،اربا خان محمد،میرآب عبدالطیف ، شاہ دوست نیچاری ، قیصرخان ،میر شہباز خان نیچاری ، میر فاضل محمد لہڑی اور میر نبی بخش جتوئی نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے علاوہ دربار قلات کے وزیرخزانہ دیوان بچہ مل اور ہرداس کے علاوہ کٹی ہندو معززین ہلاک ہوئے ۔ ملا محمد حسن نائب رحیم داد ، تاج محمد ، ولی محمد ، ملا بوہیر اور اس کابیٹا گر فتار ہوئے ۔ جنہیں روہڑی جیل میں پابند سلاسل کردیاگیا ۔
۔1839ء کی اس جنگ کو سلیگ ہیرسن نے بلوچ قومی تحریک کی ابتداقرار دیا ہے ۔
ملا محمد حسن پر بہت کچھ لکھنے کے باوجود بہت کچھ ابھی لکھنا باقی ہے ۔ گزشتہ پونے دو صدی سے محمد حسن شناسی پر کچھ خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ان کی کتابوں کو شائع کرکے منظر عام پر نہیں لایاگیا۔
ملا محمد حسن کی شخصیت اور فن پر بہت کم کام ہواہے ۔ اس لئے ان کی متنوع جہات کودیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت حد تک مزید کام کرنے کی گنجائش اور ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملا محمد حسن کی فن اور شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کی کتابوں کامطالعہ ضروری ہے ۔ سال 2017 کو ملا محمد حسن کاسال قرار دیاجائے اور اس ضمن میں بلوچی ، براہوئی ، اردو اور فارسی زبان کے علمی وادبی ادارے اپنی علمی کردار ادا کرتے ہوئے ملا محمد حسن کی تصنیف ، شاعری اور ہمہ جہت علمی خدمات پر کانفرنسز ، سیمینارز اور علمی و ادبی تقریبات کااہتمام کریں ۔
مطبوعات:۔
۔1۔ گلدستہ قلاتہ (منتخب غزلیات وقطعات و رباعیات ملا محمد حسن خان )
مرتبہ وانتخاب کلام از میر شیر علی خان بنگلزئی جون 1973ء
چاپ شدہ با سرمایہ مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان
۔2۔ گلتیات محمد حسن براہوئی(اردو کا کلاسیکل ادب)
مرتبہ ۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر
سیرت اکیڈمی بلوچستان (رجسٹرڈ) مکتبہ شال کوئٹہ
طبع اول ۔ دسمبر1976ء
طبع دوم۔ اپریل 1997ء
۔3۔ حسنیا ( فی تطبع کریما شیخ سعید ؒ
تحقیق و ترتیب ، اختر علی بنگلزئی دسمبر2010ء
زیر طبع:۔
۔1۔ مجموعہ حمد ونعت از ملا محمد حسن مرتبہ اختر علی بنگلزئی
۔2۔ معجزات احمد ؐ از ملا محمد حسن مرتبہ اختر علی بنگلزئی
مسودات: (قلمی نسخے جوغیر مطبوعہ ہیں )
۔1۔ دیوان ملا محمد حسن خان (جلد اول ، دو، سوم ، چہارم وپنجم)
۔2 ۔ مسدس ملا محمد حسن خان
۔3۔ تحفتہ القادریہ
۔4۔ مخمسا ت بر دیوان بدر الدین ہلالے
۔5۔ محمیات متفرقہ برغز لیات شعرائے مققدمین ومتاخرین
۔6۔ سامی نامہ ، مستزاد
۔7۔ رباعیات ، فردیات
ماخذات
۔1۔ لالہ ہتورام ، تاریخ بلوچستان ، 1907
۔2۔ میر گل خان نصیر تاریخ خوانین قلات
۔3۔ بلوچستان میں فارسی شاعر
۔4۔ سفرنامہ قلات
۔5۔ فارسی شاعری دربلوچستان
۔6۔قدیم براہوئی شعراء
۔8۔ ملک محمد سعیدتاریخ بلوچستان
۔-9مولانا نور احمد فریدی، ماہنامہ بلوچی دنیا ملتان اکتوبر1990ء
۔10۔ ماہنامہ احوال براہوئی، نومبر1978ء
۔11۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر، نقوش بلوچستان
۔12۔ بلبل قلات
۔-13رحیم داد مولائی شیدائی
براہوئی ناشاندار ماضی
۔14 ملک صالح محمد لہری ۔
بلوچستان ون یونٹ سے پہلے
۔15۔ میر گل خان نصیر
بلوچستان قدیم وجدید
۔16۔ میر شیر علی خان
گلدستہ قلات
۔17۔ اختر علی بنگلزئی
حسنیا
۔18۔ مولانا دین محمد
تاج پوشی قلات

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے