تو کوئی مہتابِ کوہ طور ہے
یا کوئی جنت سے اتری حور ہے
پھر بصارت کو بصیرت مل گئی
پھر مری آنکھوں میں تیرا نور ہے
میں نہیں واقف رموزِ عشق سے
یعنی صحرا اب بھی کافی دور ہے
سامنے آیا وہ شاید اس لئے
اور بھی اک امتحاں منظور ہے
آ پلٹ کر دیکھ رستے میں کوئی
زخمی ہے بکھرا ہوا ہے چور ہے
ہجر کی شب ہائے یہ ویرانہ پن
دل کی یہ ناپختگی رنجور ہے
میں نے پائی قیس سے دیوانگی
میرے سینے میں دلِ منصور ہے
کون ہو یاں محو تنہا رقص میں
ساتھ مے خانہ مرے مسرور ہے
تو نے پی ہے قاضی بادۂ طہور
وہ بھی کوئی مشربِ انگور ہے