آئینہ ہے خیال کی حیرت
اْس پہ تیرے جمال کی حیرت
کوئی چہرہ نہیں تمنّا کا
کچھ نہیں خدوخال کی حیرت
کون سا شرق کس طرح کا غرب
کیا جنوب و شمال کی حیرت
ایسا کرتا ہوں باندھ دیتا ہوں
زخم پر اِندِمال کی حیرت
دیکھنے والا بھی پریشاں ہے
ٹوٹے شیشے میں بال کی حیرت
دل پہ چلتا ہے درد کا جادو
آنکھ میں ہے ملال کی حیرت
دے گیا ہے جواب آکر وہ
رہ گئی ہے سوال کی حیرت
سب کو حیرت میں ڈال دیتی ہے
چال پر کھائی چال کی حیرت
کھینچ لیتی ہے ایک دن خود ہی
جل پری کو بھی جال کی حیرت
تحفہ ملتا ہے جب جنم دن پہ
ختم ہوتی ہے سال کی حیرت
تبصرے تھے عروج پر میرے
میں نے دیکھی زوال کی حیرت
سب عیاں ہوگیا زمانے پر
ختم شْد ماہ و سال کی حیرت
اپنا ماضی بتا رہا ہے زیبؔ
لوٹ آئے گی حال کی حیرت