اندر باہر ایک سا موسم، ایک سی وحشت طاری ہے
تازہ تازہ شعر ہوئے ہیں، سرشاری سرشاری ہے
دن نکلا ہے بستر چھوڑو اپنے کام پہ چل نکلو
سورج نے کپڑے بدلے ہیں میلی رات اتاری ہے
اس کو رخصت کرتے لمحے، اس کی ماں نے یہ بولا
بیٹا! اس کو خوش رکھنا تم میری راج دلاری ہے
اپنی گاڑی ہو تو بندہ عیش سے آئے جائے بھی
دشت میں پیدل چل کر دیکھا چلنے میں دشواری ہے
پل میں تولہ، پل میں ماشہ، پل میں سیاہ و سپید
تیری نیّت پہ شک سا ہے، کیونکہ تو سرکاری ہے