اگست 2017ء

حسبِ معمول اس دفعہ بھی جو سنگت مجھے پوسٹ ہوا تھاوہ تومجھے نہیں ملا، لہٰذا میں بابا جان کے پاس لیب پہنچ گئی ۔ ایک خوبصور ت سرورق کے ساتھ اگست کا سنگت مجھے بابا نے دیا، جس کو دیکھتے ہی قلم کی اہمیت کا مزید یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار کسی بھی محاذ پر قلم ہے ۔ اگست کا ماہتاک ہر لحاظ سے بے مثال تھا لیکن ایک بات تھی ؛ بابا کہتے ہیں کہ لکھتے وقت مجھے مذکر کو مؤنث اور مؤنث کو مذکر کرنے میں کوئی کشٹ نہیں اٹھانا پڑتا لیکن مجھے سنگت پڑھ کر لگا کہ یہ کشٹ کسی بھی بلوچ پٹھان کو نہیں اٹھانا پڑتا۔ ایسی بے شمار غلطیاں تھیں اس دفعہ۔
ابتدا تو میری شونگال سے ہی ہوتی ہے کہ وہی سب سے پہلے پڑھنا چاہتی ہوں بعد کی فہرست دل کی مرضی پر ہوتی ہے۔
’ پاور پالیٹکس اور اصولوں کی باتیں‘ ہمیشہ کی طرح ایک زوردار اداریہ؛ جی ہاں بالکل کرسی ہی کی جنگ ہے ہرطرف۔ کوئی سوچ ، کوئی نظریہ نہیں، کوئی سیاست نہیں۔ بس ذاتی مفاد کے حصول کو سیاست کا نام دیا گیا ہے۔ نوجوانوں کو کوئی نظریہ دینے کے لیے ، انھیں سٹریم لائن کرنے کے لیے ایماندارقیادت کی ضرورت ہے۔
چلتے ہیں تو چین کو چلئے ۔۔۔ اوہ نہیں بھئی غلطی ہو گئی چین کیوں، ہمیں تو ڈاکٹر شیر محمد قیصرانی کیوبا لے کر گئے ہیں ۔۔۔سفر اور وہاں کے قیام کی داستان کا ایک اچھا سلسلہ۔ اس دفعہ کی قسط پڑھ کر بھئی ہم تو بے ساختہ مسکرا ہی اُٹھے کہ عقیدہ کے ٹھیکیدار وہاں بھی پہنچ گئے اور کسی کو علم حاصل کرنے نہیں دے رہے تھے بلکہ تبلیغ کی راہ سُجھا رہے تھے۔ خیر ایک اچھا سفرنامہ ہے۔ اس دفعہ کی قسط کافی دلچسپ رہی۔
’ گوادر‘ عیسیٰ خان کا لکھا ہوا بہت تفصیلی مضمون ہے جو نام سے ہی ظاہر ہے کہ گوادر ، سی پیک اور ترقی کے شوشے کے بارے میں ہے ۔ نام نہاد ترقی کے نام پر وہاں کے غریب جن کے لیے زندگی پہلے ہی عذاب تھی، اب سی پیک نے مزید کس قدر عذاب بنا دی ہے۔ سی پیک کے ڈرامے کے بارے میں ایک اچھا مضمون ہے۔
لوجی ایک اور کرسی آگئی؛ ’ کرسی کہانی‘ ؛ شونگال کے بعد وحید زہیر صاحب کا مضمون۔ وہ روایتی کرسی کی جنگ سے مضمون کو بڑی خوبصورتی سے یوسف عزیز مگسی ریسرچ چیئر کی جانب لے آئے اور اسے قناعت کی نشانی کہہ دیا اور جہالت کے زوال پر ایک کاری ضرب۔ دو بڑی شخصیات یوسف عزیز مگسی صاحب اور عبدالصمد اچکزئی صاحب کے بارے میں تحقیقی کام ڈاکٹر شامحمد مری صاحب اور ڈاکٹر رفیقی صاحب کو یونیورسٹی نے سونپ دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آج کل کے حالات کے پیشِ نظر تعلیمی انقلاب نا گزیر ہے، ورنہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔
غنی پرواز کے بارے میں سنگت میں دو مضامین تھے؛ ایک وحید زہیر صاحب ہی کا ’ خاموش آدمی بولتا قلم کار‘اور دوسرا محمد رفیق مغیری کا’ بلند پرواز، غنی پرواز!‘ ۔دونوں مضامین ہی غنی پرواز کی علمی و ادبی خدمات کے بارے میں مختصر لیکن اچھے مضامین تھے۔
’ گام گیژ‘ میں اس بار ڈاکٹر خدائیداد صاحب کا مقالہ تھا؛ ’ سائیں کمال خان شیرانی اور آج کا نوجوان ‘ کے نام سے جو ۱۹۹۰ ء میں پڑھا تھا۔یہ خوبصورت مقالہ ان جیسی شخصیت کا ہی ہنر ہو سکتا ہے کہ وہ کس خوبصورتی سے کمال خان صاحب کی خدمات کو واضح کرنے کے لیے ان کے والد کی طرف سے بات لے آئے اور پھر اس سارے سلسلے کو آج کے نوجوان اور اس کی ذمہ داری سے جوڑ دیا۔ بہت مزیدار مضمون تھا۔
بلوچالوجی میں ایوب بلوچ صاحب کا انگلش میں مضمون تھا جس میں انھوں نے رابرٹ نیل پہرسن کو خراجِ عقیدت پیش کیا تھا ۔ وہ ایک Anthropoligist یعنی ماہرِ بشریات تھے ۔ بلوچستان اپنے خانہ بدوشانہ طرزِ زندگی وجہ سے ہمیشہ سے ماہرِ بشریات کے لیے دلچسپی کا باعث رہا۔ اسی لیے رابرٹ نے اپنی بیوی جین کے ساتھ مل کر مری قبیلے میں رہ کر ان پر تحقیق کی۔ لیکن بد قسمتی سے اسی دوران کا انتقال ہو گیا۔ لیکن ان کی کتاب Social Organization of the Marri Baloch آج بھی دنیاکی بے شمار یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ ایک بہت اچھا معلوماتی مضمون تھا ایوب صاحب کا۔
اگست سنگت میں جہاں اچھے مضامین کا پلڑا بھاری تھا وہاں ’ قصہ‘ بھی کم نہ رہا۔ بہت اچھی کہانیاں تھیں۔
پہلا قصہ جس کا میں ذکر کرنا چاہوں گی، وہ ہے ایف جے فیضی کا ’ بے کردار کہانی‘ ۔ تقسیمِ ہند سے پہلے سے لے کر آج تک مختلف کردار بلوچستان کے ساتھ جو رویہ روا رکھے ہوئے ہیں، اس کی داستان ہے یہ۔ کردار جس نے اپنے مفا دکے لیے کتا بننے سے گریز کیا اور نہ ہی آنکھیں بند کر کے کبوتر بننے سے ۔ حق بولنے والے کی زبان کاٹ دی جاتی ہے ، آنکھیں پھوڑ دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی حق کی آواز کا گلا کون گھونٹ پایا ہے۔۔۔! بہت اچھا افسانہ تھا۔
جاوید حیات نے ’ گوادر۔۔۔ ٹائر کی آگ‘ لکھا ، جس میں انھوں نے گوادر کے حالات جو بد سے بد ترہوتے جا رہے ہیں ،یہاں تک کہ اس نام نہاد ترقی کی حالت یہ ہے کہ پینے کا پانی تک میسر نہیں ، کو بڑی خوبصورتی سے افسانے میں سمویا ہے۔
’ سراب‘ کے مصنف ہیں جلال فراق جنھوں نے بلوچ دیہی زندگی کی بے حد خوبصورت منظر نگاری کی ہے۔ منظر نگاری جو کسی بھی کہانی کا اہم جز ہوتی ہے اور کہانی منظر نگاری ہی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور اسے پڑھنے پر آمادہ کرتی ہے۔
ایک اور افسانہ ’ مکڑی کا جالہ ‘ کے نام سے تھا جسے عابدہ رحمان نے کوئٹہ میں آئے روز کے دھماکوں بالخصوص8 اگست کووکلا پر ہونے والے دھماکے پر تحریر کیا۔ یہ افسانہ سنگت پوہ و زانت میں پڑھا گیا۔
حال احوال میں سموراج ونڈ تحریک کے سٹڈی سرکل کی عابدہ رحما ن کی رپورٹ تھی۔
کتاب پچار کی اس دفعہ کافی طویل فہرست رہی۔ کل چھ تبصرے شامل تھے، جن میں چار عابدہ رحمان کے تھے۔ ان چار میں سے تین ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتابوں عبداللہ جان جمالدینی، وفا کا تذکرہ اور بابو شورش پر جبکہ چوتھا تبصرہ جولائی کے ماہتاک سنگت پر تھا۔
دو تبصرے جاوید اختر صاحب نے لکھے جن میں ایک شیام کمار صاحب کی خود نوشت تھی جو کہ ایک اچھا تبصرہ تھا جبکہ ان کا دوسرا تبصرہ’ دراوڑی اور سندھ تہذیب‘ کے نام سے تھا جو واحد بخش بزدار صاحب کی کتاب ہے۔ اس تبصرے میں اگر اس کتاب کے چند ٹکڑے بھی ہو جاتے تو بہت اچھا ہوتا لیکن پھر بھی ایک اچھا تبصرہ تھا۔
بلوچی حصہ اس بار نسبتاً کم تھا۔ گلزار گچکی کا چکن گونیا نامی بیماری سے متعلق معلوماتی مضمون اور شاہ محمود شکیب کی ماما جمالدینی سے متعلق نظم البتہ قابلِ مطالعہ و قابلِ تذکرہ ہیں۔
اور اب ہو جائے شاعری کا تڑکا؛
عبدالرحمان غور صاحب کی یوسف عزیز مگسی کے حضور نظم تو اچھی تھی ہی لیکن مجھے جو نظم سب سے مزیدار لگی وہ تھی نوشین قمبرانی کی ’بلوچستان کے سائے‘۔ ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا مزہ لیں؛
یہ ہر صف میں کھڑے ہیں ، غرض سے بالا
جدا ہیں راستے ان کے مگر یہ ’ عشق‘ کے مرکز میں رہتے ہیں
یہ سائے دوسرے خطوں میںیا تاریخ کے ادوار میں پلتے ہوئے
سایوں کی خوبی سے کسی طرح نہیں کوتاہ!
مصطفی شاہد کی نظم ’ چپ کا سرمہ ‘ کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے جناب، وہ کہتے ہیں ؛
اس نے مریض کی نبض ٹٹول کر
گھمبیر لہجے میں کہا
میں تمھارے لیے
چپ کا سُرمہ تجویز کرتا ہوں!
مصطفی شاہد کی دوسری نظم ’ مراقبہ‘ بھی اچھی تھی۔
شاعری کے حصے کو آخری ٹچ ثبینہ رفعت صاحبہ کی شاعری ہی دیتی ہے ۔ ان کی بہت ہی خوبصورت نظمیں سنگت میں یہاں وہاں ہرطرف بکھری ماہتاک سنگت کی خوبصورتی کو بڑھاتی ہوئی ملیں گی ۔ اب یہ نظم پڑھیں ناں آپ لوگ؛
’کشٖف‘
تمھارے / ماتھے پر/روشنی کی لکیر ہے/سنو/لوگوں نے مجھے/پیغمبر کہہ دیا ہے/ان کو/کیا معلوم کہ/میں/تم سے مل کر آئی تھی!
واہ کیا کہنے۔۔۔ اب اس نظم کے بعد کوئی مزید کچھ کہنے کے قابل رہ سکتا ہے بھلا ۔۔۔؟
لہٰذا یہیں ختم کرتے ہیں ۔ ملتے ہیں اگلے شمارے کے ساتھ۔۔۔!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے