اْسی نے خوابِ تمدْن سنبھال رکھا ہے
کہ جس نے اپنا توازْن سنبھال رکھا ہے
وہ زخم جسم پہ آیا نہیں ابھی جس کے
کْریدنے کو یہ ناخْن سنبھال رکھا ہے
ہَوس میں خود کو پچھاڑا ہے اْور وجود اپنا
برائے موجِ تعفْن سنبھال رکھا ہے
گْزر رہے ہیں سبھی پْل صِراط سے لیکن
کسی کسی نے توازْن سنبھال رکھا ہے
لہو سے کھینچ کر آنکھوں میں اشک رکھ دینا
غمِ جہاں نے عجب گْن سنبھال رکھا ہے
کوئی تو ہے جو بڑھاتا ہے وسعتِ عالم
کسی نے سلسلہء کْن سنبھال رکھا ہے
سنبھال رکھا ہے سائے نے اک بدن آزرؔ
گْماں نے جیسے تیقْن سنبھال رکھا ہے