یکتائی
تنہائی کے سمندر میں
خواہشوں کی کشتی نے
اتنے غوطے کھائے ہیں
اب دونوں کی الگ الگ
پہچان ہی نہیں رہی

آخری پتّا
دل کی ساری دھڑ کنیں
روح کی ساری حدتیں
آنکھ کی بے تابیاں
حر ف کی رعنائیاں
وسعتیں افکار کی
جذبے کی توانائیاں
سب کی سب
اس کی تھیں
پر ہمارے یاروں نے
جرم ناکردہ کی بھی
وہ سزائیں دیں
کہ اب
روح کی کرچیاں ہوئیں
بینائی بے وماعت ہے
اور
دل نجانے کیا ہوا
اب کے بھی
اس کے لیے
میں چھپا کے رکھ لیتی
کچھ بھی باقی بچتا تو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے