کتنا مزیدار خبط ہے اِس غلط العام بات کا باطل قرار دینا کہ : ’’ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں‘‘۔شاید جینیاتی معاملہ بھی ہوگا مگر بلوچستان بہت سی دوسری وجوہات کی بنا پر بھی اس فقرے کا مخالف ہے۔ یہاں شروع سے بالعموم اور گذشتہ نصف صدی سے بالخصوص، ایک شعوری اور مستقل مزاج کوشش رہی ہے کہ جو لوگ خلقِ خداسے محبت کرتے ہیں ،انہیں اُن کی زندگی ہی میں عوامی ثواب میسر رہے۔
اسی طرح ہمارے اِس فیصلے میں بھی بہت جان ہے کہ ٹکرایا جائے اُس نفسیات سے جس کے تحت کسی بھی وجہ سے متنازعہ بنے ہوئے عاشقِ خلقِ خدا کی ساری خدمات ہی اُس معمولی متنازعہ گیری میں بھلا دی جائیں۔
چنانچہ یہ ایک طرح سے مین سٹریم دنیاوی رویوں سے بلوچوں کی مخالف سمت کی پیراکی ہے ۔ اور اِس باغی پیراکی میں بقول کمال خان شیرانی ’’ گاؤوں کی تہمتیں‘‘ ہمارے حصے میں آئیں۔ ( اور تہمتیں پتہ نہیں بہت نیچ اذہان سے ہی کیوں آتی ہیں؟)۔
ہم گوڈوں، کمروں اور توانائیوں کی دیمک زدگی میں مبتلا اپنے باقی رہ جانے والے دو بزرگ سنوں کو گھروں سے پِک کرنے روانہ ہوئے۔ عطاء اللہ بزنجو یہ جانتا بوجھتا بھی ہے کہ کوئٹہ کے رش میں موٹر سائیکل یارکشہ کے بجائے موٹر کار میں سفر کرنا ’’ کالا پانی‘‘ جھیلنا ہے، پندرہ منٹ کا راستہ جھنجھلاہٹ کا پون گھنٹہ لیتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ بوڑھوں کو سہارا دے کے گاڑی تک لانے،اُ ن کے عصا کو باقاعدہ ایک آدمی کی طرح احتیاط سے گاڑی میں جگہ دینے ، اُن کی باہر رہ گئی ٹانگ کو گاڑی میں فٹ کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مگر پھر بھی بار بار فون کرتا ہے۔’’ سر‘ دیر نہ لگانا‘‘ ۔
پروفیسر گل بنگلزئی کو اُس کی ’’ کمریا‘‘ نے خانہ نشینی کی سزا دے رکھی ہے جبکہ قاضی عبدالحمید شیرازاد کو توکمر، اورایک پیرکے کراہ بھرے دردوں اور’’ام الامراض ‘‘یعنی شوگر نے آدھا کرکے رکھ دیا ہے۔ میں جب اُن کے ساتھ ہوتا ہوں توبڑھتی عمروں کے حساس اذہان کے موضوعی دکھوں غموں کا تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک فیصلہ زندگی میں یہ بھی کررکھا ہے کہ بزرگ سن جب گاڑی میں بیٹھ جائے تو اُسے اپنے گھر، محلے اور شہر سے کوسوں دُور کے کسی موضوع پہ لگادو۔ کم از کم ایک آدھ گھنٹہ تواُس کا ’’غم غلط‘‘ ہو۔
میں نے نوشکی میں مدفون محبوب کے ہمزاد کو رپورٹ دی کہ ’’ میں گل صاحب اور قاضی حمید شیرزاد کو لینے نکلا ہوں تو اُس نے جواب بھیجا ’’ ایک جہان قربان ‘‘ ۔ اور جب بتاتا ہوں کہ ’’ یہی دو بزرگ رہ گئے ہیں جن کی خدمت پہ مامور ہوں تو ظاہر ہے اُس طرف سے یہی جواب آنا تھا’’ ساری کائنات تیری‘‘۔
ہم ارباب کرم خان اور جائنٹ روڈ پہ اس باربرداری کے پراسیس میں واپسی پہ ہوتے ہیں،اورجب تقریب کا ہال ،یعنی بلوچی اکیڈمی قریب پہنچتی ہے تو بزرگ مسافروں کا کشتی بان موبائل پہ ہال میں موجود ساتھیوں کو maydayکی کال دیتا ہے۔ ( فرانسیسی لفظ ’’ میدر‘‘ کا ہم تلفظ یہ لفظ بین الاقوامی طور پر 1948 میں رائج ہواتھا، اس لفظ کی صدائیں جہاز کا پائلٹ اُس وقت دوہراتا رہتا ہے جب اُس کا جہاز کسی حادثے یا خرابی کی بنا پر گرنے والا ہوتا ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے ’’ مدد، مدد‘‘) ۔
ہماری اِس کال کی برکت سے ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی آٹھ دس ہٹے کھٹے نوجوان مین گیٹ پر بلوچ فہم و فہمیدگی کو آنکھوں کی ہتھیلیوں پہ اٹھانے موجود ہوتے ہیں۔ میں اُس وقت کرسی پہ بیٹھے ہوئے قاضی عبدالحمید کو ٹوکتا ہوں جب وہ اپنی کرسی اٹھائے سیڑھیاں چڑھتے نوجوانوں سے کہہ اٹھتا ہے :’’تم لوگ کب تک ہم زندہ لاشوں کو اُٹھا اُٹھا کر سیڑھیاں چڑھاتے رہو گے؟‘‘۔
ابھی تقریب شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ ہے۔ دوسری منزل پر سٹیج کی تیاریاں عروج پہ ہیں۔ جیند خان کی طرف سے عطیہ کردہ بزنجو صاحب کی تصویر سے بنے بڑے بینر میں نیچے بزنجو کا عہد (2017-1917) لکھا ہوا ہے اور بائیں جانب کونے میں سوویت یونین کے پرچم کے گرد دائرے میں 1917 تا 2017 لکھا ہوا ہے۔(یہ بزنجو بابا کی طرح سوویت انقلاب کی بھی 100ویں سالگرہ کا سال ہے)۔ مایا کوفسکی زندہ ہوتا اور اپنے وطن سے ہزاروں میل دوربلوچستان میں اس ہال میں موجود ہوتا تو لینن پہ لکھی اپنی 64 صفحوں والی نظم میں ایک صفحے کا اضافہ ضرور کرتا۔ ضرور لکھتا کہ لینن ’’ بابائے قوم‘‘ تو روسیوں کا ہے، مگر وہ ٹیچر تو بلوچستان جیسے سارے خطوں کا ہے۔جہاں وہ لوگ اپنے بابا کو یاد کرتے ہوئے اُسے بھی خراج تحسین پیش کرنا نہیں بھولتے۔
نیچے گراؤنڈ فلور کی راھداری پہ سنگت اکیڈمی کی کتابوں کا میلہ سجا ہے ۔ایک لمبی میز پہ کتابوں کے انبار سلیقے سے سجائے ہوئے ہیں۔ میز کے پیچھے سنگت اکیڈمی کا سیلزمین جیسا ساتھی، ساجد میر دکانداری کے فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا ایک مسلسل ہجوم ہے ۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لڑکے کتابوں کے بھوکے لگ رہے تھے۔ آدھی قیمت پر کتاب تو نعمت ہوتی ہے اور ہمارے قاری اس نعمت پہ جھپٹ رہے تھے۔سنگت اکیڈمی کی اچھی روایتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کی تقاریب میں کتب میلہ ایک مستقل مظہر ہوتا ہے ۔
ہمارے ساتھی سادہ ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ تقریب سنگت اکیڈمی کی ہو، اوراُس کے لیے بلوچی اکیڈمی کا ہال کافی ہوگا۔چنانچہ ایک بار پھر ایسا ہوا ۔سٹیج سیکریٹری کے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنے سے بہت پہلے ہال کے دونوں حصے کی کرسیاں، صوفے، میزیں سہارے بھر گئے تھے۔ ہم نشستیں نہ ملنے والے کھڑے ہوئے دوستوں کی گلہ مندآنکھوں سے یوں نظریں چرارہے تھے جیسے میرا کوئی شاگرد کسی رش والے چوک میں ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اچانک مجھے دیکھ لے۔
ایسی صورت حال میں قدرتی طور پر اُن احباب پرسے شکوہ پیدا ہوتا ہے جو ہال اور دیگر انتظامات طے کرنے سے متعلق میٹنگ میں موجودہ فیصلے تک آنے میں اثر انداز ہوئے تھے۔گو کہ سنگت اکیڈمی کے کچھ دوست کھڑے ہوئے ’’بے نشستوں ‘‘کو اپنی جگہیں دے رہے تھے مگر پھر بھی بہت شوق سے آئے ہوئے بہت سے احباب دو تین گھنٹہ تک تقریب کے اختتام تک کھڑے ہوئے مقالے اور باتیں سن رہے تھے۔
پریز یڈیم میں بلائے جانے سے قبل ایک وڈیو دکھائی گئی۔ یہ محترمہ نوشین کمبرانڑیں کی آواز میں میر گل خان نصیر کے بلوچی کلام ’’گلیں ڈیواشمالانی‘‘ کے فیضؔ کے کیے ہوئے اردو ترجمے کے گائے ہوئے دعائیہ ترانے پہ مشتمل تھی۔ اس میں مگسی صاحب سے لے کر بزنجو تک اور بزنجو سے لے کر عبداللہ جان وخدائیداد وکمال خان تک کے سیاسی تسلسل کی منظر کشی کی گئی تھی۔اسے ہماری تنظیم کے سربراہ عابد میر نے بنایا تھا۔
اچھا ہے سنگت اکیڈمی کی تقریبات میں کوئی بلند آہنگ اور جذباتی کرنے والا سٹیج سیکریٹری نہیں ہوتا۔ ایک ایجوکیٹو ادارے کا سارا کام درس و تفہیم جیسا ہوتا ہے،معاملے کے اسباب وعلل سے معلوم داری کرنی ہوتی ہے۔ ہمارا سٹیج سیکریٹری وحید زہیر تھا۔
فل سپیڈ سے چلتے پنکھوں کی کائیں کائیں، میرے اپنے بہت پیچھے بیٹھے ہوئے ہونے، اورکھڑے ہوئے اور بیٹھے لوگوں کی انفارمل گفتگو ،اورٹی بی زدہ ساؤنڈ سسٹم کے سبب وحید زہیر کے ابتدائی کلمات سنائی نہ دیے۔ مگر جب پچھلی دیوار سے لگے کھڑے سامعین نے ’’ ششش ‘‘ کی آواز نکالی تو یکدم ایسی خاموشی چھا گئی جیسی ایک اچھے ٹیچر کے کلاس روم میں داخل ہونے کے وقت چھا جاتی ہے۔ سٹیج سیکریٹری کہہ رہا تھا: عبدالعزیز کرد اور یوسف مگسی سے لے کر بزنجو تک یہاں کی بلوچ عوامی تحریک اس قدر تسلسل میں رہی جس طرح بزنجو اور خیر بخش سے لے کر اس ہال تک کا تسلسل ہے۔ اولمپک لیمپ ہے جو ایک سو برس سے معمر نسل نئی نسل کو تھما کر قیادت ان کے حوالے کرتی جاتی ہے۔
مگسی سے بزنجو تک کے تسلسل ،کا پہلا مقالہ نگار نوجوان ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو تھا (سر کے 80 فیصد بالوں کی سفیدی والی نوجوانی اُس کی بھی سوالیہ نشان کی زد میں ہے)۔
ڈاکٹر صاحب چونکہ سٹوڈنٹس پالٹکس اور ڈاکٹروں کی ہڑتالوں میں بہت ساری تقریریں کرتا رہا اس لیے وہ تقریر کے کسی بھی موقع کو ضائع نہیں کرسکتا (اب تو وہ تحریر کے معاملے میں بھی یہی کرتا ہے)۔ سٹیج دیکھتا ہے تو اس کا من لپک لپک کر اُس تک پہنچنا چاہتا ہے۔ پتہ نہیں وہ شریف آدمی نوجوانوں کے لہو گرما دینے والی تقریر کی عادت کو اکیڈمک مقالہ میں بدلتے ہوئے کتنی مصیبت جھیلتا ہوگا!۔
وہ دلیل، تسلسل اور ابلاغ کو اپنے جسم کی gesture سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنا مقالہ پڑھ رہا تھا۔ اور مجھے ہر لمحہ یہ خدشہ رہا کہ ابھی وہ کاغذ پڑھنا بند کردے گا اور ’’ مارشل لا مردہ باد، ہمارے مطالبات تسلیم کرو‘‘ کا نعرہ لگا کر ہال کو ہجوم میں بدل کر جناح روڈ سے پریس کلب تک جلو س کی قیادت کرے گا۔ مگر ہر وقت کی طرح اِس بار بھی وہ نبھا گیا۔ سینکڑوں ماہر درزیوں کی کانٹ چھانٹ کے باوجود تذکیر و تانیث سے مبرا اُس کے مقالے کا لباس بلوچیت کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے تھا۔ اُس کے مقالے میں محترم ڈاکٹر حئی بلوچ کے عادی لفظ’’ بے بخت‘‘ کی تکرار تو موجود نہ تھی اور نہ ہی ڈاکٹر کہو ر خان کا پسندیدہ لفظ ’’ گنجلک‘‘ بار بار بولا جارہا تھا۔ مگر اپنے مخصوص ڈھنگ ڈھب سے عطا کی تقریر یک دم شناخت کی جاسکتی ہے۔ وہ وکلا لیڈر برادرم علی احمد کرد کی طرح اپنے لہلہاتے جسم اور رزمیہ طور پر رقصاں لہراتے بازوؤں کے ساتھ ہوا سے لڑتا ہوا تو نہیں لگتا مگر جس فقرے پر زور دینا ہوتا ہے وہاں اُس کے چہرے پر ایک عصمت بھری سرخی دوڑ جاتی ہے، ایک بدھا سمائیل پید ا ہوتا ہے اور اُس کا جسم ایک طرف کو لچک کھاجاتا ہے ۔ پھر بھی اگر تسلی نہ ہو تو وہ اسی ایکٹ کو دہراتے ہوئے وہ فقرہ دوبارہ پڑھتا ہے ۔
مگر جو اقوالِ زریں وہ واٹس ایپ گروپ میں پھینکتا رہتا ہے وہ یہاں کم تھے۔۔۔۔۔۔ موضوع بہت سنجیدہ جو تھا۔
عطاء اللہ جب پڑھ کر ’’ تقریر‘‘ کررہا ہو تو وہ سمجھو تالیاں بجنے سے مایوس ہوکر ایسا کرتا ہے۔ آپ کاموؔ سے پلیخانوف کا کام لیں گے توایسا تو ہوگا۔
پروفیسر زاہد دشتی نے کسی کی شاعری سناتے سناتے خود اپنی بلوچی شاعری سناڈالی۔ اس کے بعد شاہ بیگ شیدا حسبِ عادت بار بار اردو میں تشریح کرتا ہوااپنا براہوئی کلام سناتا رہا۔تشریح تو کام نہ آئی الٹا اپنی شاعری کے ٹوٹے ٹوٹے کرتا رہا۔
اگلا مقالہ نگار، وہم و گمان میں بھی نہ آنے والا ’’ مقالہ نگار ‘‘ تھا ، ڈاکٹر سلیم کرد۔ سلیم جان ایک میٹھا انقلابی ہے ۔ جو اصطلاحات45 برس پہلے سیکھے تھے، من و عن انہی پہ کھڑا ہے۔ تنہا ‘جیسے بے درخت وسیع وادیِ اسپلنجی میں کٹار کا بہت ہی گھنا درخت اکیلا کھڑا ہے۔ اتنی بڑی وادی میں بہت گھنے مگر تنہا، درخت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ اُس میں جن ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور سلیم کرد کے جن بھوتوں سے اُس وقت پناہ مانگیے جس وقت وہ زبانی تقریر کررہا ہوتا ہے ،یا پھر وہ لکھے ہوئے کو پڑھتے پرھتے کسی نقطے کی تشریح کرنے زبانی بول پڑتا ہے۔ اللہ اکبر۔ تب تو سپر پاور امریکہ بھی اسے دوبارہ ٹریک پر نہیں لاسکتا۔ اس لیے دوستوں نے تقریب سے قبل بار بار نظریں کاغذپر جمائے رکھنے کی استدعا کررکھی تھی ۔ مگر جب وہ مقالہ پڑھنے اٹھا تو بھی اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا تھا کہ آخر میں ایک سوال اٹھاؤں؟۔ خدا خدا کرکے اُس نے کوئی سوال نہ اٹھانے کی ریکوئسٹ مان لی۔ اور اپنا مقالہ ہی پڑھا۔ وہ ایسا کر کے ہمارے ایک دور نشین دوست کی اس بات کو جھٹلا گیا ’’ وہ مائیک کسی کو دے گا ہی نہیں‘‘ ۔نہ صرف اُس نے اُس فتوے کو غلط ثابت کیا بلکہ اس نے تو مائیک استعمال ہی نہیں کیا ۔ جو لوگ سلیم کرد کی بلند آہنگ خاصیت کو جانتے ہیں وہ یہ فقرہ پڑھ کر فوراً کہیں گے ’’ بھلا ڈاکٹر سلیم کو مائیک کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔
بے تیغ بھی لڑنے والے سپاہی ڈاکٹر سلیم کی بلند آہنگی سے بھی بے شرم ساؤنڈ سسٹم کو کوئی خجالت نہ ہوئی۔ اور اُس نے اپنی گہہ گیری stubbornness ترک نہیں کی۔ ایسے لگتا تھا جیسے لاؤڈسپیکر رقیب سے ساز باز میں تھا۔(جی ہاں، لاؤڈسپیکر تاریخ میں بہت بڑا ردِ انقلابی رہاہے)۔
سلیم کرد کا مقالہ شام کو تھا مگر صبح کے سارے اخباروں میں وہ یہ مقالہ ہی شائع کراچکا تھا ۔ (حالانکہ مجھے یقین ہے اس نے اپنی شہرت بڑھانے کے لیے ایسانہ کیا ہوگا)۔اس لیے بہت سے اخبار بین لوگ اس کے مقالے کے دوران موبائل فون سے چمٹے رہے ۔
سٹیج سیکریٹری نے ڈاکٹر منیررئیسانی اور افضل مراد کی میٹھی شاعری کو باری دی۔ اول الذکرنے اردو اور افضل نے براہوئی شاعری سنائی۔
تیسرا مقالہ نما پیپربہن عابدہ رحمن کا تھا ۔ وہ دراصل بزنجو صاحب پر لکھی کسی دوست کی کتاب پر تبصرہ لکھ کر لائی تھی۔ لیکن اُس کا اسلوب اس قدر خوبصورت تھا کہ اس نے کتاب کا تذکرہ محض آخری سطروں میں کیا۔ وہ کتاب میں سے بزنجو کی سیاسی سوانح کو ناول یا افسانے کی صورت بیان کرتی رہی۔ کاش ہمارا بورژوا پریس پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری کا انتظار کیے بغیر اسے چھاپ لیتا۔
ساجد بزدار نے اللہ بخش کی بلوچی شاعری سنائی۔اس کے بعد بہت آہستہ سے بات کرنے والا ہمارا بہت ہی اچھا شاعر بیرم کھسر پھسر میں اپنی شاعری سنا گیا۔
محترم سرور آغا نے ہال کے شرکا سے کانفرنس قراردادوں کی منظوری لی:
۔1۔سنگت کا یہ اجتماع کوئٹہ کے آٹھ اگست کے سانحے کی تحقیقات اور فالو اپ میں مکمل ناکامی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ریاستی اداروں کی ناکامی سے تعبیر کرتا ہے۔
۔2۔ موجودہ نام نہاد جمہوریت ،نواز شریف کی طرف سے پارلیمنٹ کی بے وقعتی اورعوامی مسائل سے متعلق اس کے نام نہاد ارکانِ اسمبلی کے شرم ناک کردار کے باوجود، ہم پارلیمانی پراسیس کی برخواستگی کے کسی ارادے ، خواہش اور کوشش کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔ہم کسی قسم کے غیرجمہوری، غیر آئینی و غیرپارلیمانی عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
۔3۔ہم پاکستان کی کچھ نام نہادسیاسی پارٹیوں کی جانب سے اپنے گھناؤنے سیاسی عزائم کے لیے خواتین کی کردار کشی کی مذمت کرتے ہیں۔
۔4۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاست سے ہی حل ہو گا۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسلسل و مستقل سلسلے کے بعداب سندھ میں متحرک سماجی، سیاسی کارکنوں کی گمشدگی سیاسی معاملات کو فوجی طور پر حل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
۔5۔ ملکی آئین و قانون کے تحت صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کی شہریوں کو مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن ریاست اس سے دست بردار ہو چکی ہے۔ صحت کے سرکاری مراکز و سرکاری تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کااطلاق، غیراخلاقی و غیرآئینی ہے، اسے فوراً ختم ہونا چاہیے۔
۔6۔امن و امان کے قیام میں ناکامی کے بعد شہر میں ٹریفک کی روانی، اور پانی کی فراہمی سے متعلق بھی ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ریاست جن سہولیات کے لیے شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے، ان کی فوری و بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنائے۔
۔7۔ یہ اجتماع، میر غوث بخش بزنجو کی ہمارے خطے میں سیاسی جمہوری عمل، جمہوریت کی عمل داری، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، عورتوں کی فلاح، اور ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔
سنگت کانفرنس کے انعقاد سے ایک دن پہلے جلیلہ حیدر نے سنگت اکیڈمی کے پیشگی منظورکردہ فیصلوں میں تبدیلی چاہی اور طاہر خان ہزارہ کو مدعو کرنے کی فرمائش کردی۔ وہ دراصل اُس سے بات کرچکی تھی ۔ اب چاہتی تھی کہ کوئی سینئر شخص اُس سے فون پر بات کر کے اسے دعوت دے۔جلیلہ کا کہنا تھا کہ طاہر خان ، بابا بزنجو کے ساتھ کام کرتا رہا ہے اور وہ ایک بہت مخلص سیاسی ورکرہے ۔ جب تنظیم کے ایک سینئر دوست نے طاہر صاحب سے کانفرنس میں شرکت کی درخواست کی تو اُس کا سوال تھا: کس موضوع پر بولنا ہے اور کس وقت آنا ہے ؟ ۔ جواب تھا : آپ کی تشریف آوری ہی کافی ہے ۔ ہم اگرکچھ وقت چوری کرسکے تو آپ ایک آدھ منٹ بولیے وگر نہ آپ کی موجودگی ہی برکت ہوگی ہمارے لیے۔
سرور صاحب کی قرار دادوں کی منظوری کے بعد ہی وہی طاہرہزارہ سٹیج پر تھا۔ صورت وشباہت سے کوئی دانشوری سیاست گری نہیں چھلکتی تھی۔ رنگت میں اُس کا گورا پن سانولا گیاتھا۔ اس کی بلوچی ٹوپی نئی نہ تھی ۔مگر کالی واسکٹ اور بائیں کندھے پر چھوٹی سفید چادر والایہ شخص جو بولا تو ہم سب کھچ گئے اُس کے خیالات کی جانب ۔سادہ جیسے بزنجو ،کھرا جیسے خیر بخش، مستحکم جیسے لال بخش ، سمجھانے کا انداز جیسے رحمت اللہ اسلم ۔ آواز صاف ‘جسے فاقہ زدہ مائیک کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بات اُس کے منہ سے سیدھا سامع کے دل میں پیوست ہوتی جاتی تھی۔اُس کی کہی ہوئی بات اور سامع کی کان کے بیچ غضب کی سنکر ونائزیشن تھی۔ وقت کو اُس کے اوقات میں رکھ کر طاہر ہزارہ قبولیت کی بے پناہ تالیاں سمیٹ کر چلاگیا۔ ہمارے دماغ ابھی تک اُس کے اِس فقرے کی بازگشت میں مبتلا ہیں کہ: ’’بزنجو جھوٹ نہیں بولتا تھا‘‘۔
گل بنگلزئی کو وہیں مائیک دیا گیا ۔اس نے شستہ اور شائستہ براہوی میں یوسف عزیز مگسی اور بزنجو صاحب کے تسلسلِ فکرو سیاست کے بارے میں بتایا اور اُن دونوں بڑی شخصیات سے سنگت اکیڈمی کی فکری وابستگی پہ منتظمین کو شاباشی دی۔
قاضی عبدالحمید شیرزاد نے بلوچی زبان میں بزنجو صاحب سے اپنی ملاقاتوں کے ٹکڑے سنائے۔اس نے کتنی درست بات کہی کہ مگسی نے بلوچستان میں سیاست کی شروعات کی اور بزنجو نے اُسے معراج تک پہنچایا۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے سیکرٹری جنرل(سربراہ) عابد میر نے اپنی صدارتی تقریرمیں اس کانفرنس کے سلسلے میں تمام تعاون کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے بتایا کہ سنگت اکیڈمی میں صرف اُس کے دوسالہ دورمیں دودرجن کتابیں چھپیں اور انٹرنیشنل ادب سے دو درجن کتابیں بلوچی تراجم کراکر چھاپی گئیں۔وہ خوش تھا کہ اُس کے Tenureکی غالباً یہ آخری بڑی کانفرنس کا میابی سے انجام پذیر ہورہی تھی ۔ اس نے ہمیں شرکا کوکولڈ ڈرنک پلانے کی ہدایت کے ساتھ اپنی صدارتی تقریر ختم کردی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے