دو دن سے اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھ رہا تھا۔درد کی شدید ٹیس پیٹ میں اٹھتی اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا۔شادی کو دو ہی سال ہوئے تھے ۔حمیداللہ کا رویہ بہت اچھا تھا ۔البتہ ساس ساری کسر پوری کردیتی ۔ایسے میں حمیداللہ خاموش تماشائی کا کردار بن کر بس تماشا ہی دیکھا کرتا۔ فہد ابھی دس ماہ کا ہو چکاتھا ۔گھر ،بچہ ساری ذمہ داریاں بحسن و خوبی پوری کر رہی تھی ۔۔۔ساس کی باتیں بھی کان لپیٹ کر چپ چاپ سنتی رہتی جس پر ڈھیٹ کا لقب ملتا،لیکن دوچار روز سے پیٹ میں اٹھنے والے اس درد نے ساس کی زبان کے لیے گویا مہمیز کا کردار ادا کیا ۔اب ڈھیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نخرے ،بہانے باز اور نجانے کن کن خطابات سے نوازی جاتی۔
حمیداللہ کے سامنے کھانا رکھنے کے بعد فہد کو گود میں بیٹھا کر دہی کہلانے لگی تھی ابھی پہلا چمچ ہی منہ میں ڈلاہوگا کہ ایک دفعہ پھر درد کی لہر جان کا عذاب بن کر ناز ل ہوئی۔ وہ ایک طرف لڑھک گئی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔آرام سے آرام سے ۔۔۔ساس کی کرخت آواز ابھری۔ پتہ ہے اچھی طرح فہد باپ کی کمزوری ہے وہ اسے دیکھ دیکھ کر جیتا ہے ۔ہم نے بھی تین تین بیٹے پیدا کیے ۔۔۔بڑا غرور ہے تمھیں بیٹے کا آج سر پر بٹھایا ہے تو کل اتار بھی سکتا ہے ۔۔۔کم سے کم بیٹے کو تو بخشا کرو ۔۔۔۔وہ مسلسل بول رہی تھی۔حمید اللہ کے چہرے کے تاثرات بھی بدلنے لگے ۔وہ جارحانہ انداز میں اسے دیکھنے لگا ۔فہد کی چیخیں ۔۔۔ماں کا شورشرابا اس کے سامنے رکھے لذیذ کھانے کے درمیان رکاوٹ بن رہے تھے جب کہ وہ ۔۔۔کسی اندھیرے کنویں میں جہاں گہرے سناٹے اور گھپ اندھیرے کے علاوہ خاردار کانٹے تھے۔۔۔تیز نوکیلے پتھر جو اس کے وجود کو کاٹ رہے ۔۔۔باہر کیا ہورہا تھا وہ بے خبر تھی۔اس کی حالت کا نوٹس لیے بغیر ساس نے فہد کو بھلانے کے لیے گود میں اٹھالیا ۔۔۔بڑھاپے میں بھی کام سے آرام نہیں ہے مجھے ۔۔۔وہ بڑ بڑ اتے ہوئے جانے لگی ۔۔۔فہد کے بہل جانے کے بعد حمید اللہ اطمینا ن سے کھانا کھانے لگا۔۔۔
تیز دھوپ کی حدت سے اس کا وجود پسینے سے تر بتر ہوگیا۔وہ ہوش میں آتے ہی معمول کے مطابق کاموں میں جت گئی ۔۔۔بیچ کے دودن خیر و عافیت سے گذرے اور آج پھر اسے شدید تکلیف کا دورہ پڑا۔ اب تو حمید اللہ بھی اس روز روز کی تکلیف سے تنگ آگیا تھا ۔۔۔پتہ نہیں کیا مصیبت تھی ۔۔۔شاید ماں ٹھیک ہی کہتی ہے بہانے ہیں سب ۔۔۔عورتوں کے متوجہ کرنے والے نخرے ۔۔۔اچھی بھلی ہے ۔۔۔دو دودن ٹھیک رہتی ہے ۔۔۔کھاتی پیتی ہے پھر کیا مسئلہ ؟ تما شا ہے روز روزکا ۔۔۔ماں نے سنا تو دوڑی دوڑی آئی ذرد چہرہ۔۔۔آنکھوں کے گرد کالے سیاہ حلقے ۔۔۔خشک ہونٹ ۔۔۔اس کی بیماری کی گواہی دے رہے تھے۔وہ اسے اپنے ساتھ بابا خرواری لے آئی۔باہر بیٹھے خلیفہ سے دعا کروائی ۔زیار ت سے خاک اٹھا کر پانی میں گھول کر پلائی ۔۔۔دو کی بجائے تین دن آرام سے گذر گئے ۔۔۔۔حمید اللہ اسے شاہ صاحب کے پاس لے گئے ۔۔۔انہوں نے آنکھیں بند کر کے مراقبہ کیا ۔۔۔اور پھر انتہائی تشویش سے انکشاف کیا کہ کسی دوسری مخلوق کا سایہ ہے ۔۔۔جو شاید مشکل سے ہی جان چھوڑے لیکن میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کروں گا ۔۔۔انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔انہوں نے کچھ تعویز جلانے کے لیے ،کچھ پلانے اور ایک بازو پر باندھنے کے لیے دیا اور مسلسل دوہفتوں کی یقینی حاضری بھی ۔۔۔ اگلے دن جھاڑو لگاتے ہوئے پہلے ایک ہلکا سادود کا جھٹکا محسوس ہوا ۔۔۔وہ جھاڑو پھینک کر بیٹھ گئی ۔۔۔ساس اسے اس طرح سے بیٹھے دیکھ کر پھر سے شروع ہو گئی ۔۔۔پتہ نہیں کیسے جن ہیں جو کام کرتے وقت آجاتے ہیں ۔رات کو تو گھوڑے بیچ کر سوتی ہے ۔۔۔کوئی دورہ نہیں پڑتا ۔۔۔کوئی جن نہیں آتا ۔۔۔جب کام کا وقت ہو اور شوہر بیٹھا ہو تو ہی حور بی بی کو دورہ پڑتا ہے ۔۔۔
یہ کیسا درد تھا اس کی سمجھ سے بالاتر ۔۔۔اب تو اس کی ٹانگوں میں جان بھی باقی نہیں رہی تھی وہ تمام تر توانائیاں بروے کار لا کر کام کرتی ۔اس کے لیے تو اب فہد کو سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا تھا ۔چند ہی دنوں میں اس کا وزن بری طرح سے گرا تھا ۔ہر وقت خوف زدہ رہتی ۔دل ہی دل میں جان لیوا درد کے خیال کو جھٹکتی ۔۔۔شاہ صاحب نے کہہ دیا تھاکہ اس زاویے پر سوچا بھی تو یہ دوسری مخلوق اس کی سوچوں اور خیالات کا راز پا کر اسے تکلیف دے سکتی ہے سو وہ سوچوں کو جھٹک کر خود کو مصروف رکھتی۔
اس نے جلدی جلدی فہد کو نہلایا دہلایا۔نرم چاولوں کی کھچڑی کہلائی۔۔اور روٹیاں پکانے لگی ۔حمید اللہ کے آنے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا اور وہ بھوک کے معاملے میں بڑا بے صبر تھا ۔اس خیال سے ہی وہ جلدی جلدی روٹی پکانے لگی ۔ابھی دو ہی روٹیاں پکائی تھیں کہ درد کا ایک شدید گولا اٹھا جس نے اس کے سارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ۔اس کی ساس نے اسے گرتے دیکھ لیا تھا ۔وہ تلخی سے ہنسی ۔۔۔کام اور شوہر کے آنے کا ٹائم ۔۔۔ہونہہ وہ پلٹ گئی وہاں سے۔۔۔
خالی پلیٹ کے ساتھ کھیلتے فہد کے ہاتھ سے پلیٹ چارپائی کے نیچے جا گری وہ اور پلیٹ کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں نیچے جا گرا ۔ساس اسے سنبھالنے میں لگ پڑی ۔۔۔ سر ڈھلکتے ہی اس کا جسم ڈھیلا ہو گیا اور ہاتھ گرم توے پر جا پڑا وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔۔اس حد تک کہ جلتے ہاتھ کا بھی ہوش نہ رہا ۔۔۔حمید اللہ گھر میں داخل ہوا ۔۔۔جلتے گوشت کی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور اس کا بے خبر اوندھا پڑا وجود ۔۔۔وہ تشویش سے دوڑتا ہوا اس کے قریب آیا ۔اس کا ہاتھ ہٹایا اور اسے گھسیٹے ہوئے لٹایا آج اس کی بیماری کا پکا یقین ہو گیا ۔ساس بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے جلے ہاتھ کو دیکھنے لگی ۔حمید اللہ کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا وہ کیا کرے ۔وہ جلدی سے ٹوتھ پیسٹ اٹھا لایا اور اس کا لیپ لگایا قریبی میڈیکل اسٹور سے جلنے والی ٹیوب لگائی اسے ہسپتال لے آیا ۔شعبہ حادثات لے کر گیا ۔۔۔اس اثنا میں وہ ہوش میں آگئی تھی پیٹ کا درد بھول گئی اور اب ہاتھ کے درد نے بے حال کردیا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے چیک اپ کرتے وقت حادثے کے حوالے سے پوچھا۔حمید اللہ نے اسے بتایا گذشتہ دو ہفتوں سے اس کی بے ہوشی کا ۔۔۔اوہ اس نے سر ہلایا ۔۔میں مریضہ کی پٹی کر دیتا ہوں اور یہ ادویات بھی لکھ رہا ہو ں اس نے پرسکرپشن لکھی اور پٹی کی تبدیلی کا دن بتانے کے ساتھ ساتھ ایک پرچی اور لکھتے ہوئے ہدایت دی۔ بہتر یہ ہے کہ کل آپ صبح اس ڈاکٹر کی او پی ڈی ہے مریضہ کا چیک اپ اور الٹرا ساؤنڈکروالیں تاکہ ان کے مرض کا پتہ چل سکے ۔۔اسے ہدایت دینے کے بعدوہ دوسرے مریضوں کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔لیکن وہ اس کے سامنے لہراتی ہو گر پڑی اوہ آپ اسے ابھی ایمر جنسی میں لے جائیں اس کی حالت مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔۔۔
الٹراساؤنڈ کرتے وقت ڈاکٹر عائشہ کی آنکھیں تشویش سے پھیل گئیں ۔۔۔اوہ۔۔۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا پتہ نہیں یہ زندہ کیسے ہے۔ساتھ کھڑی اسٹاف کو فوری آپریشن کی ہدایت دیتے ہوئے بتایا ۔
مریضہ کو ریپچر ٹیوب پریگننسی ہے ۔ٹیوب سے گرنے والا خون پیٹ میں جمی ہو ئی صورت میں اکٹھا ہو چکا ہے ۔۔۔یقیناًاسے پیٹ میں شدید تکلیف ہوتی ہوگی ۔پتہ نہیں اس نے کھانا کتنے بجے کھایا ہوگا؟کہیں انستھزیا کے حوالے سے کوئی پیچیدگی نہ ہو ۔رسنے ولا خون رائٹ اوری میں جمع ہوتا رہا ہے اور بلڈ کا اچھا خاصا بڑا کلاٹ بن گیا ہے جس نے رائٹ ٹیوب اور اوری کو بری طرح سے متاثر کیا ہے ۔مریضہ کی زندگی شدید خطرے میں ہے ۔فوری آپریشن کرکے رائٹ ٹیوب اور اوری کو نکالنا ہو گا ۔۔۔وہ سٹاف کی طرف متوجہ ہوئی جب بھی بلڈ کا ڈراپ ،رپچر ہونے والی ٹیوب سے رستا ہے تو تکلیف کی شدت کے باعث مریضہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔۔۔تھوڑے وقفے کے بعد رپچر ہونے والے حصے کا خون جم جاتا اور سب سسٹم معمول پرآتا ۔۔۔جو اگلے دویا ایک دن کے وقفے کے بعد پھر پرانی صورتحال پر آتا ۔۔۔۔
باہر کھڑے حمیداللہ کی سمجھ سے یہ ساری باتیں بالا تر تھیں پتہ نہیں وہ کیا کہہ رہی تھی عجیب و غریب باتیں ۔۔۔اگلے تین چار گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر عائشہ نے کامیاب آپریشن کرکے اس کے جسم سے ectopicکا بھوت نکال دیا۔