صبح ہوچکی تھی ۔سرخ سورج آہستہ آہستہ مشرق سے ظاہر ہورہا تھا۔پہاڑیوں پرٹھنڈی بادِسحرکے جھونکے رواں تھے۔چاروں طرف مختلف پرندے چہچہارہے تھے۔
قلندرشہباز چہارستونی چبوترے پراپنے تمام تر جاہ وجلال کے ساتھ کھڑاتھا۔نیچے کھڑے تھے دورو نزدیک کے سب طالبانِ معرفت اور مریدین،جو اُس کی لب کشائی کے منتظر تھے۔
قلندر شہباز،جس کی گردن گلے میں پڑے گلوبند کے سبب تھوڑی سی جھکی ہوئی تھی، اونچا ہوا۔اُس نے پہاڑی پر موجود اپنے تمام طالبوں اور مریدوں پر ایک طائرانہ نظرڈالی اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کو لہراتے ہوئے فرمایا،
’’سیوہن کے قلعہ بند شہر کے لوگوں کو جاکر بتاؤ کہ ہم آج رات اس شہرِقلعہ کو اُلٹا کرنے والے ہیں ، کیوں کہ انسانی بے حسی اب اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔اس لیے جو کوئی ہمارا ساتھ دے گا سرخ رُو ہوگا اور جو کوئی منکر ہوگا،وہ ذلیل و خوار ہوگا۔‘‘
تمام طالب اور مرید’آمنا وصدقنا‘کہہ کر شہر کو دوڑے۔ اور پھر گھروں،محلوں اور محلاتوں میں یہ شور مچ گیا کہ قلعہ بندشہر شب بھر میں اُلٹا دیا جائے گا۔ ہرچیز اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی۔وہ کہ جنہوں نے اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے حد سے زیادہ بنایا اور جمع کیا ہے، دربدر ،خاک بہ سر ہوجائیں گے،جن کے سر نخوت،گھمنڈ اور تکبر سے اکڑے ہوئے ہیں،وہ ملیامیٹ ہوجائیں گے۔رہے گاتو صرف نامِ خدا ہی رہے گا!
شہر کے ایسے لوگ کہ جنہیں کچھ نہ کچھ احساس تھا کہ یہ شہر جرم اور گناہ کی دلدل میں پھنس چکا ہے،وہ فکرمند تھے کہ کیا کیاجائے …!؟ اور وہ کہ بے حسی جن کے دلوں میں گھر کرچکی تھی،خوب ہنسے،کہ ایک کنگال قلندر کی کیا مجال کہ صدیوں سے تعمیر شدہ قلعہ بند شہر ،جس کی ایک ایک اینٹ ظلم و ستم اور جورو جبر کی بنیادپر رکھی ہوئی ہے،وہ ایک ہی رات میں کس طرح الٹایاجاسکتا ہے؟؟
جب جاسوسوں اور مخبروں سے ہوتی ہوئی یہی بات منتریوں اور مہامنتری سے پھر راجاچوپٹ کے کانوں تک پہنچی تو راجا چوپٹ ہنس ہنس کر بے حال ہوگیا۔
راجا ہنستے ہوئے کہنے لگا،’’یہ قلعہ بند شہر کیا ہی مضبوط بناہوا ہے کہ اس کی بنیادوں میں بے حسی کے پتھر استعمال ہوئے ہیں اور اس کی فصیلیں خون آلود ہیں۔اسے سکندراعظم ایسا حملہ آور تو ہلاسکتا ہے ،لیکن ایک بھوکا ننگا فقیر کہ جس کے ہاتھ میں لکڑی کا ڈنڈا ہے،کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
راجا چوپٹ کی اس بات کی تصدیق تمام درباریوں نے بڑی شدومد کے ساتھ کی۔
راجا نے اعلان کیا کہ سب کے سب کل شام ’راج سبھا‘ میں حاضرہوں تا کہ اس ڈھونگی فقیر اور اس کے ساتھیوں کے لیے کوئی سخت سزا تجویزکی جاسکے۔تمام درباریوں نے آنے کا وعدہ کیا اور پھر اٹھ گئے۔
اُس رات،جب تمام لوگ، جو اپنے آپ کو قلعہ میں محفوظ سمجھ رہے تھے،اپنے اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے اور کچھ نرم و نازک سینوں سے چمٹے ہوئے تھے،تب کچھ اور لوگ پراسرارجدوجہد میں مشغول تھے۔انہوں نے ہر اس آدمی کے دروازے پر دستک دی ،جہاں سے انہیں تھوڑی سی بھی سرگوشی سننے میں آئی اور پھر انہوں نے دل کے حضور سے اپنے مرشد کا پیغام پہنچایا۔اور لوگ مرشد کا پیغام سن کر ’آمنا و صدقنا ‘ کہنے لگے اور اس بات پر ایمان لانے لگے کہ ہو نہ ہو اب قلعہ والا شہر ضرور الٹا کیاجائے گا۔
جوں ہی سویرا ہوا،صبح کی روشنی پھیلی تو ہر آنکھ نے دیکھا کہ قلعہ بندشہر واقعی بھی الٹا ہوچکا تھا …..!!
بڑے دروازوں کے کھلنے کے بعد قلعہ سے باہر رہنے والے سادہ لوح لوگ جب اپنی محنت مزدوری کے لئے قلعہ کو پہنچے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا واقعتاََ ایسا ہوسکتا ہے!؟
اور پھر انہوں نے قلندر شہباز کی شان میں عقیدت کے گیت گائے اور یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے کہ یہ سچ مچ ایک انقلاب ہے!!
شہر میں جو گھر الٹے نہیں ہوئے تو وہ صرف کچھ خاص درباریوں اور راجا کے محلات تھے،جو بڑے مضبوط ہاتھوں اور شقی القلب کاریگروں کے تعمیر کردہ تھے۔
شام کو جب دربار لگا ،تب راجا چوپٹ اور درباری وقت پر پہنچ گئے ،لیکن پردھان منتری غائب تھا۔
راجا نے درباریوں سے پوچھا،’’پردھان منتری کہاں ہے؟‘‘
منتریوں نے کہا،’’ کچھ پتہ نہیں۔‘‘
راجا نے ناراض ہوکر کہا،’’ پردھان منتری کو فوراََ حاضر کیا جائے…کہ ہم اس سے اپنے شہر کا حال معلوم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
دربار کا خاص قاصد اٹھنے والا ہی تھا کہ پردھان منتری بڑا گھبرایاگھبرایاسا اندر داخل ہوا۔
’’کیابات ہے ؟‘‘ راجا چوپٹ نے پوچھا۔
’’جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟‘‘
’’جان کی امان د ی جاتی ہے،جلدی بتاؤ کہ شہر کا حال کیاہے؟‘‘ راجا نے جلد ی جلدی پوچھا۔
پردھان منتری نے کہا،’’ جہاں پناہ! قلعہ بند شہر کے اکثر گھر اُلٹے ہوچکے ہیں،لوگ اُلٹے ہوچکے ہیں،اذہان اُلٹے ہوچکے ہیں۔شہر کی ہر چیزپہلے سے مختلف اور اَوندھی ہوچکی ہے۔‘‘
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ پردھان منتری!‘‘ راجانے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔
’’ہاں….راجاصاحب! جن گھروں کے لوگ آج سے پہلے لکشمی کی پوجا کرتے تھے ،وہ آج صبح مندروں میں نہیں پہنچے ….. انہوں نے نہ آنے کا سبب یہ بتایا کہ اب ہمیں اس ظاہری لکشمی کی ضرورت نہیں رہی ،اگر ہے تو ہمیں باطنی لکشمی کی ضرورت ہے،جو ہمیں حاصل ہوچکی ہے۔‘‘
’’ اوردیگر لوگ ؟‘‘راجا نے پرجا کے متعلق پوچھا۔
’’ وہ بھی اُلٹا بیوپار اور سلوک کررہے ہیں۔کوئی بھی ناپ تول میں بے ایمانی نہیں کررہا…. کوئی بھی سونے میں تانبا نہیں ملاتا …. ہرایک بازار میں ہیرے کو ہیرا اور پتھر کو پتھر کہہ کر بیچ رہاہے۔‘‘
’’ اور اذہان کس طرح اُلٹے ہوچکے ہیں؟‘‘ راجا نے پردھان منتری سے بڑی بے چینی سے پوچھا۔
’’ راجا! افسوس تو یہی ہے کہ ہمارے شہر کے لوگ نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کررہے ہیں۔وہ ’میٹھے جھوٹ‘ کی جگہ ’کڑوا سچ‘ بول رہے ہیں۔فقیروں کی عزت کرتے اور امیروں کو پوچھتے تک نہیں ہیں ۔‘‘
’’ایک ہی رات میں اتنا بڑاانقلاب کیوں کر ممکن ہے!؟‘‘ راجا نے پریشانی کے مارے پردھان منتری سے سوال کیا۔
’’ یہ سب اُس فقیر اور درویش کا پیغام ہے ،جسے لوگ قلندر شہباز کہتے ہیں۔جب ہم غفلت کی نیند میں غلطاں تھے،تب یہ پیغام گھر گھر پہنچ گیا اور لوگوں کے ضمیر بیدار ہوگئے۔‘‘
’’آخر یہ کیسا پیغام ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتماد پیدا ہوگیا ہے!؟‘‘ راجا چوپٹ نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
پردھان منتری نے کہا،’’ قلندری پیغام یہ ہے کہ ہر انسان کی روح اس کا پِیر،اس کا وجود اس کا مرید،اس کا دل اس کا مرشد اور اس کا فہم اس کا طالب ہے،اس لیے حق اور سچ کا راستہ یہیں سے ملے گا، اور کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
پیغام سن کر راجا چوپٹ کا سانس رک سا گیا،اس نے کمزور لہجے میں کہا،’’ پردھان منتری! واقعی بھی شہرالٹا ہوگیا!!‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے