کتاب : فیڈل کاسٹرو
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : ۲۲۴
قیمت : ۴۰۰ روپے
مبصر : عابدہ رحمان
آگہی واقعی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ علم ہاتھ آجائے، آ گہی ہو جائے تو پھر کبھی کوئی انسان غلام نہیں بن سکتا ، غلام بننے پر تیار نہیں ہو سکتا۔ جب شعور مل جاتا ہے کہ مجھے ودیعت کردہ حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے تو تب وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے۔ نہ ملیں تو انقلاب برپا کرنے کے لیے بھی سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اسے کبھی جیل کی اذیتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تو کبھی اس کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس سب کے ساتھ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انقلابی کو تو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن انقلاب کو آج تک کون قتل کر پایا ہے؟
فیڈل کاسٹرو کاکیوبا جو امریکہ کے عقب میں واقع ہے، ۱۴۹۲ میں کولمبس نے دریافت کیاتھااور ایک دم سے سپین دعویٰ گیر بن بیٹھا کہ یہ تو ہمارا ہے۔وہاں ظلم، جبر،تشدد کی تاریخ رقم کر کے انھیں غلام بنا ڈالا۔ امریکہ نے بھی اس اثنا میں گوانتا موبے کے ۴۵ مربع میل کے ٹکڑے پر قبضہ جما لیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ میں فیڈل کاسٹرو کی بات شروع کروں، حق یہ ہے کہ اس کے استاد جوزی مارٹی پر پہلے بات کروں کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے بھی کتاب کی ابتدا اسی سے کی ہے۔
۲۸ جنوری۵۳ ۱۸ کو ہوانا میں پیدا ہونے والا جوزی مارٹی جو اپنے مضمون ’ کیوبا میں سیاسی قید‘ میں لکھتا ہے کہ ’ خدا موجود ہے، البتہ اچھے نظریات میں۔۔۔ جو اچھا ہے وہ خدا ہے‘۔ جوزی مارٹی امریکہ کے عزائم کے خلاف تند و ترش مضامین لکھتا رہا اور سپین اور امریکہ کے خلاف لڑا۔ اس کا نیویارک کے ایڈیٹر کے نام خط کا ایک ٹکڑا دیکھیں: ’ کوئی باحمیت کیوبن اس صورتحال کو قبول نہیں کرے گا کہ اس کے ملک پر ایک ایسا ملک قبضہ کر لے، جس کے لیڈر اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ کوئی بھی خوددار اور دیانت دار کیوبن ایسے لوگوں کی اطاعت قبول نہیں کرے گا جو اس کی اہلیت تسلیم نہیں کرتے، اس کی تذلیل کرتے ہیں اور اس پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔‘ اسی خوددار مارٹی نے ۱۸۹۸ کو سپین کو شکست دی ۔پھر امریکہ آگیا لیکن ۱۹۰۲ میں کیوبا آزاد ہو گیا۔لوگوں کو متحد کرنے والا یہ مجاہد ۱۹ مئی ۱۸۹۵ کو سائرامائسترا میں شہید ہوا۔
فیڈل کاسٹرو جس نے ہوانا یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی، ایک زمیندار کا بیٹا ہونے کے ناطے دیہات کے کسانوں کے مسائل سے بہ خوبی واقف تھا، اس لیے اسے ظلم و استحصال سے کراہت ہونے لگی۔ سماج کے اس استحصالی رویے، تجزیے نے اس کے خفتہ پروں کو کھول دیا اور اس نے آزادی کی اڑان اڑنے کی ٹھانی۔
یونیورسٹی میں اس نے آرتھوڈوکس پارٹی بنائی اور ساتھ ہی اس نے ایک خفیہ اخبار نکالنا شروع کیا۔ ۱۰ مارچ ۱۹۵۲ کو فوجی آمر،بتستا نے دستوری حکومت ختم کر کے الیکشن بھی منسوخ کر دیا۔فیڈل جیسے ایک آزاد دل و دماغ کا سچا آدمی کہا، آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے ۱۲۰۰ نوجوانوں پر مشتمل ایک تنظیم ’ آرتھوڈوکس یوتھ‘ بنائی۔ خود ان کی تربیت کی۔ انھیں سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں سمجھائیں ، کارل مارکس کا فلسفہ سمجھایااور یوں وہ اس بات کے لیے تیار ہو گئے کہ بتستا سے آئینی حکومت بحال کروائی جائے۔
۔۲۶ جولائی ۱۹۵۳ کوفیڈل نے اپنے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مل کر ۲۶ سال کی عمر میں کیوبا کے شہر سنتیا گوڈی کیوبا کی چھاؤنی مو نکیڈا پر حملہ کر دیا تاکہ اس پر قبضہ کر کے اسلحہ عوام میں تقسیم کرے اور ساتھ ہی بتستا کے خلاف بغاوت کا کھلے عام اعلان کیا جائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اقتدار عوام کے پاس ہو، انقلابی تحریک کے پاس ہو اور ۱۹۴۰ کا آئین بحال کیا جائے، زمین کسانوں میں بانٹی جائے، ۳۰ فی صد منافع مزدور کا ہوگا اور گنے کے کاشتکار کو چینی کی پیداوار کا ۵۵ فی صد دیا جائے۔
فیڈل کا یہ حملہ ناکام ہو گیا اور اسے ۷۶ دنوں تک جیل میں قیدِ تنہائی کے حوالے کیا گیا ،جہاں اسے اپنا مقدمہ خود لڑنا پڑا اور یہی وہ وقت تھا جب اس اپنی مشہورِ زما نہ ۵ گھنٹے کی تقریر ’ تاریخ مجھے بری کر دے گی‘ کی۔ اس تقریر کا خلاصہ ہی اس تبصرے میں ممکن ہے:
’ مجھے قانون کی مدد سے محروم کیا گیا، ہوانا کے وکیل کو مسترد کیا گیا کیوں کہ دراصل وہ سچ سے خوف زدہ تھے لیکن میں اپنا زخمی دل لیے اپنے زخمی وطن لیے سچ کو راز میں کیسے رکھ سکتا ہوں ۔ دستور کے مطابق سماعت کو کھلا ہونے کی بجائے عوام کو دور رکھا گیا ، نرسیں جو وہاں کام کرتی تھیں سچ اگلنے کے ڈر سے دور رکھا گیا لیکن دوسری طرف حملے کے وقت کٹہرے میں غیر متعلقہ لوگ بیٹھے تھے ۔لیکن میں اپنے قیدی ساتھیوں پر خوف ناک جرائم کے الزام کی تردید کرتا ہوں ۔ تیسرے سیشن میں ڈاکٹر میرے پاس معائنے کی غرض سے آئے تاکہ میں سرٹیفکیٹ پر دستخط کر سکوں کہ طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے میں عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا لیکن میں نے انکار کر دیا۔میرے فرار کی جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں تاکہ مجھے قتل کیا جا سکے۔‘
سچ کو دبانے کی سازشوں کے باوجود فیڈل نے ملک کی فوج، اساتذہ، صحت کی سہولیات اور کاشتکاروں اور مزدوروں کی حالت بتائی کہ ہم مخلص ہیں اس لیے بے خوف ہو کر سچی بات کرتے ہیں کہ فوج سے اصل کام نہیں لیا جا رہا بلکہ سپاہی سول اور ملٹری افسروں کی نجی جائیدادوں پر مشقت کرتے ہیں۔ اساتذہ کی اجرت اور باقی سہولیات بہت کم ہیں۔ انقلابی قوانین کے مطابق مزدوروں کو معدنیات کے منصوبوں کے منافع میں ۳۰ فی صد اور گنے کے کاشتکاروں کو چینی کی پیداوار میں ۵۵ فی صد دینا چاہیے،جب کہ ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والا مال ضبط کیا جانا چاہیے۔ ہسپتالوں میں سفارش کو ختم کر نا چاہیے تاکہ غریب کا بھی بھلاہو۔ ملک میں ووکیشنل اور ٹریننگ سینٹر کھولنے چاہئیں۔
فیڈل نے اپنی تقریر میں ۱۰ مارچ کو فوجی صلاحیت پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نہتے قیدیوں قتل کر کے اعلان کیا کہ وہ لڑائی میں مارے گئے۔ اسی طرح ۱۹۳۳ء میں ہتھیار ڈالنے والے افسروں کو قتل کیا گیا۔ عورتوں کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ریڈیو سٹیشن پر حملہ کیا۔شہریوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ آئین سے غداری کی گئی، عوام سے اختیارات چھین لیے گئے۔لہٰذا ایک ہی راستہ بچا تھا، ایک ہی حق جسے کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی ۔۔۔جبر اور نا انصافی کی مزاحمت کا حق۔۔۔ظلم کُشی۔ حقوق کی خلاف ورزی پر بغاوت مقدس۔۔۔’ تاریخ مجھے بری کر دے گی۔۔۔!‘
عدالت نے فیڈل کو ۱۵ سال کی قید کی سزا سنائی۔ رہائی کے بعد مئی ۱۹۵۵ میں جان کے خطرے کی وجہ سے میکسیکو جلا وطنی اختیا رکی۔ اسی سال وہ چے گویرا سے ملا اور یوں فیڈل، راؤل کاسٹرو، چے گویرا اور المیدا‘ انقلاب کے راستے کے ساتھی بن گئے۔فیڈل اور اس کے ساتھی بخوبی جانتے تھے کہ سوشلزم کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے، لہٰذا وہ اسی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا اورسچ کا پابند رہتے ہوئے وہ کیوبا سے رابطے میں رہا۔ وہیں لڑکوں کی تربیت کی۔ سیاست سکھاتا رہا اور ۱۹۵۶ میں وہاں سے بھی جلا وطن کیا گیا۔
گرانما کشتی انقلاب کی علامت ٹھری جبکہ سائرا مائسترا کا طویل سلسلہء کوہ جہاں جوزی مارٹی شہید ہوا تھا، کیوبا کے انقلاب کا ہیڈ کوارٹر ٹھہرا، وہ منظم انقلابی لڑائی جو ۱۲ آدمیوں اور ۷ بندوقوں کے ساتھ لڑی گئی۔
فیڈل کا ایک اور کارنامہ کہ اس نے ۴ ستمبر ۱۹۵۸ کو ’ماریانا ‘ کے نام سے عورتوں کی ایک گوریلا تنظیم بنائی اور ۱۹۶۰ میں ’ فیڈریشن آف کیوبن ویمن‘ بنائی جس کی صدر راؤل کاسٹرو کی بیوی ولما ایسپین بنی۔سیلیا بھی ایک سرگرم انقلابی تھی۔ ان کی تربیت بھی فیڈل نے خود کی۔
دسمبر ۱۹۵۸ تک سانتا کلارا اور سانتا گو سمیت بے شمار شہراور ۱۹۵۹ میں دارالحکومت ہوانا بھی گوریلوں کے قبضے میں آتے گئے اور وہاں اصلاحات نافذ ہوتی چلی گئیں ۔ انقلاب کے بعد فیڈل کاسٹرو نے کوئی سیاسی عہدہ نہیں لیا لیکن ۱۶ جولائی ۱۹۵۹ کو اروشیا کی نااہلی پر وہ وہ وزیراعظم بنا اور ۱۹۴۰ کا آئین بحال کیا، زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور اکثر اداروں کو نیشنلائز کیا۔ اس سارے حالات پر امریکہ کا تو بپھرنا بنتا تھا ، لہٰذا اس نے کیوبا کو معاشی دھچکا دیا ؛ گنے کی فصل کو آگ لگا دی، چینی جو کیوبا سے خریدتا تھا ،وہ خریدنے سے انکار کر دیا اور اس کے علاوہ کیوبا پر خوف ناک بمباری کی، کاسٹرو کے قتل کے منصوبے بنائے لیکن فیڈل نے ہار نہیں مانی ؛ ’ سوشلسٹ انقلاب ‘ کی پہلی کامیابی تھی کہ ۱۲۰۰ امریکی ایجنٹ نے ہتھیار ڈال دیے لیکن فیڈل کاسٹرو کو دیکھئے کہ انھوں نے پھر بھی مذاکرات کی پیشکش کی۔
انقلاب کے بعد فیڈل کاسٹرو کیوبا میں صحت، تعلیم ، روزگار،زچہ و بچہ ، سائنس و ٹیکنالوجی،سوشل سیکیورٹی، رہائش، ثقافتو ادب و فنون اور ماحولیات کی دنیا میں بھی انقلاب لے آیا۔
اس عظیم لیڈر کو اقوامِ متحدہ کے صدر اورنیلسن منڈیلا نے مختلف موقعوں پر خراجِ عقیدت پیش کیا ،یہاں تک کہ وینزویلا کے صدر شاویز نے تو اپنی چوتھی بار کی کامیابی کو فیڈل کاسٹرو سے منسوب کیا۔
پارے کی طرح متحرک اس شخصیت ، فیڈل کاسٹر و نے بالآخر ۲۵ نومبر ۲۰۱۶ کو وفات پائی۔
یوں فیڈل کاسٹرو نے اپنے کہے الفاظ سچ کر دکھائے کہ ’ میں نے فاصلے سے جبر کی چھاؤنیوں کے اوپر آزادی کے شعلے جلتے دیکھے۔ ایک روز ہم ان کی راکھ پر سکول کھڑے کریں گے !‘
ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب پڑھیں گے، فیڈل کاسٹرو کی عظیم جدوجہد کے بارے میں معلوم ہوگا تودماغ کھل جائے گا کہ جدوجہد کہتے کس کو ہیں اور ان عظیم شخصیات کو سلوٹ کرنے کو جی چاہے گا۔ ضرور پڑھیں کہ یہ بہت ضروری ہے۔