1 ناشتے سے زیادہ مجھے دادی کے دیئے ہوئے وہ دوروپے زیادہ پیارے تھے، جو وہ ہر روز مجھے سکول خرچ کے طور پر دیتی تھی۔ میں جوتوں کے تسمے باندھے بغیر سکول کا ڈانگری بیگ اُٹھائے گھر سے نکل پڑا۔ بیری کے درخت والی گلی سے نکلتے ہی میں اُسی راستے پہ چل پڑا جہاں سائیکلوں کے پنکچر کی دکان تھی۔ اُس روز نائی، دھوبی، راشن شاپ، پنکچروالا، بیکری کی دکان سب بند تھیں۔گلی کا سنّاٹاپاگل کی بوری اوڑھے ریڑھی پہ سو رہاتھا۔ عام دنوں میں پنکچر والے کی دکان پرپُرانے زنگ آلود چَین، گراری،رینگ، اسپوک اور گھسے پٹے ٹائربرآمدے میں ٹنگے بہت بھلے لگتے ہیں۔میں اکثر اِنہیں دیکھ کر یہ سوچتاکہ یہ اب کسی کام کے نہیں، لیکن یہاں بے کار نہیں پڑے ہیں۔دکان کے باہر ٹریکٹر کا کٹا ہُوا پُرانا ٹائرہر وقت پانی سے بھرا رہتا ہے، جوٹیوب پہ لگے پنکچر کی آسانی سے نشاندہی کرتاہے۔اورشام کو گائے، کتے، بکریاں اِس ٹائر کا پانی گاﺅں کے جوہڑ کاپانی سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ اچانک درزی کے گھر سے کتے کی بھونکنے کی آواز آئی، دُور سے ایک شور سُنائی دے رہاتھا، وہ چھک چھک کرتی ریل گاڑی کے پہیوں کی طرح زورزور سے چیخ رہے تھے۔اور جلوس میرے سامنے سے سٹیشن پہ کھڑی گاڑی کی طرح نکل رہا تھا ۔سکول کی گھنٹی بج رہی تھی ،میں اپنا بستہ بغل میں دبائے جلدی سے جوتوں کے تسمے باندھے، سکول جانے کی بجائے اُس جلوس میں شامل ہوگیا۔ریل کے آخری ڈبے میںکچھ تھکے ہارے مسافروں کے ہاتھوں میں وہی پُراناکٹاہوا ٹائر تھا، جوہروقت گرم پانی سے بھرارہتا تھا۔ ” پانی دو بجلی دو! ورنہ کرسی چھوڑدو! امریکہ نے کتا پالا! ضیاالحق چڑّی والا!“۔۔۔۔۔۔یہ نعرے لگ رہے تھے۔ میں ڈراسہمااُنہیں حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔سبزی منڈی کے پیچھے پہنچتے ہی اُنہوں نے کٹے ہوئے ٹائر کو آگ لگا دی۔ مجھے بہت پیاس لگ رہی تھی،آج میں گھر سے پانی کی بوتل لینا بھی بھول گیا،پانی کا نعرہ سنتے سنتے مجھے پانی کی بھوک لگ گئی تھی۔ میں نے یکمشت گدھا گاڑی اِسٹاپ کے بغل والے ٹیبل پہ رکھے جگ کا سارا پانی پی لیا۔ کسی نے بازو پرکالی پٹی باندھے ہوٹل کا ٹیبل اُٹھاکے بیچ چوک پر رکھ دیا،اور ساتھ میںایک بنچ بھی،تاکہ مقرر آسانی سے ٹیبل پر چڑھ سکے۔ کالر اور آستینیں اچھی طرح جھاڑنے کے بعداُس نے جونہی تقریر شروع کی تو جلدی سے ایک موٹے آدمی نے سٹیل کا گلاس پانی سے بھرکر اُسے تھما دیا۔ پانی کے اُوپر پانی پت کی لڑائی سے زیادہ بڑی تقریریں پڑھی گئیں۔وہ جتناپانی پیتا، مائیک پر اُتنا ہی پانی مانگتا۔ پولیس کے آتے ہی جلوس میں شامل تمام لوگ اتنی تیزی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے، جیسے جنگل میں خرگوش لومڑی کودیکھ کر جلدی سے اپنے بِل میں چھپ جاتا ہے۔
2 رات کو میں نے داداجان سے کہا” ا مریکہ نے گوادر کا پانی کیوں روکا ہے؟ امریکہ کراچی سے کتنا دُور ہے؟ اور یہ ضیاالحق کون ہیںجو امریکہ میں ریڑی لگوا کر چڑّی بیچتے ہیں“؟ دادانے مجھے گھورتے ہوئے کہا، ”تم نے یہ باتیں کہاں سُنیں“؟ ”ابّا!صبح جلوس میں شامل لوگ بول رہے تھے۔“ ”یہ باتیں تیری سمجھ میں نہیں آئینگی،تم چڑّی پہن کے سو جاﺅ! (دادانے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا) اِس بات کوپینتیس برس بیت گئے، داداجان چل بسا،پر یہ باتیں آج بھی میری سمجھ سے باہر ہیں۔ دیواروں پر جھونپڑی، اُونٹ، مٹکا،سائیکل، ہاری،کلہاڑی کی تصویریں بنتی گئیں، لیکن آج تک کسی دیوار پر پانی کی مکمل تصویر نہیں بنی۔اُس زمانے میں بھی گوادر میں پانی کا مسئلہ چیچک کی وبا کی طرح پھیل گئی تھی، جب رات کو صرف چار گھنٹے بجلی ملتی تھی۔اُس سمئے شہر کافی چھوٹا تھا،پر مسائل آج سے زیادہ سنگین تھے۔ اُس دور میں پانی کا مسئلہ حل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی ،کہ مقامی سیاسی جماعتوں کے پاس سیاست کرنے کیلئے کوئی دوسرا ایجنڈا بھی نہیں تھا۔ یہاں مستقل بنیادوں پر پانی کا حل تلاش ہی نہیں کیا گیا،جس کے سبب ساحل کی چٹّانوں پر خون کا دریا اُتر گیا۔ 1987ءکوجیونی کی زمین پر پانی مانگنے والوں پربندوق کی نلی کھول دی گئی۔ایک مرد اور خاتون کے ہمراہ ننھی یاسمین بھی مُرجھا گئیں، اُنکے لہو کی خوشبوسارے وطن میں پھیل گئی۔ یہ وہ درد ناک سانحہ تھا، اِس کے بعداِس مسئلے کونہایت سنجیدگی سے حل ہونا چاہیے تھا۔لیکن ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہماری اِس فریاد کو اخبار کی سُرخی سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔ہر ڈیڑھ دو سال بعداِس شہر کے کناروں پرپیاسے گھوڑے آسیب زدہ چڑیل کے پیچھے دوڑ لگاتے ہیں،مگر گھوڑے بیچ کر سونے والوں کے کانوں میں جُوں تک نہیں رینگتی۔ اِس سال مئی کا آخری اور جون کا پہلا ہفتہ احتجاج،دھرنا، شٹرڈاﺅن، ہڑتال اور مظاہروں کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہُوا۔ہڑتال جتنا طول پکڑتی ، پانی اور بجلی مانگنے والوں کی تشنگی بڑھ جاتی۔اب تو سب کی سمجھ میں آگیا ہے کہ ہڑتال صرف لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھاتی ہے۔ اچانک ڈپٹی کمشنر کی گاڑی آتے ہی دھرنے پہ بیٹھے لوگوں کی آنکھیں سگنل کی سبز بتی کی طرح روشن ہوگئیں۔ اور زور زور سے تالیاں بجنے لگیں،تو کسی نے ایکدم سے مائیک پر بلند آوازمیں کہا، ”بھائیو! جب بارش ہوگی توڈیم پانی سے بھر جائیگا انشااللہ! اورمیں آپ سے وعدہ کرتا ہُوں، بارشوں کے بعد پانی کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائیگا۔تالیوں کی بارش رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی،کسی نے جلدی سے مائیک اُسکے ہاتھوں سے چھین لیا۔ ہر بار بارشوں کے بعد پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا،صرف پانی پیدا کرنے والے مشینوں پر زنگ چڑھ گیا۔اور پانی بحران پر قابوپانے والی سرکاری فائلیںدیمک کھا گئیں،سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کا خواب ،خواب ہی رہ گیا۔3 اِس شہر کے پانی کاقصہ قاضی دادمحمد مسجدکے حوض کے نلکے جتنا پُرانا ہے۔کوئی بتائے اِس طرح گوادرکے پانی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ یہاں جوبھی ناظم ،چیئرمین اور ایم پی اے بنا، اُس نے اپنا گھر کراچی ڈیفنس میں بنا لیا۔سچ تو یہ ہے سرزمین کاغم رونے والی بلوچستان کی پوری قیادت کراچی ڈیفنس میں رہتی ہے۔ ہر ضلعے کا نمائندہ صرف الیکشن کے وقت اپنے گاﺅں آتا ہے۔گوادر کے اپنے نمائندے پانی کا دُکھ نہیں جھیلتے ،کیونکہ وہ خودتواپنے بچوںکے ساتھ کراچی،عمان اور بیجنگ میں رہتے ہیں۔ ہر دفعہ احتجاج اور ہڑتالوں کے باوجودضلعی حکومت اِس لیے پریشر میں نہیں آتی، کیونکہ سیاسی جماعتوں میں شامل بیشترارکان اورپارٹی کے اہم کونسلرٹھیکیدار ہیں۔اور اِن جماعتوں میں ممبران کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے،اِس شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ممبروں کی تعداد19افراد سے زیادہ نہیں ہے۔ پانی بحران کی ایک دوسری اور بڑی وجہ یہ ہے، گوادر کے ڈپٹی کمشنر کا دفترپچھلے پچیس سال سے ایک اسٹیٹ ایجنسی کا روپ دھار چکا ہے،جہاں عوامی کام کم زمینداروں کا کاروبار زیادہ چلتا ہے۔میں اِس مضمون کے توسط سے چیف منسٹر بلوچستان سے گزارش کرتا ہُوںکہ گوادر میں جب بھی ڈپٹی کمشنر تعینات کریں تو دو ڈپٹی کمشنر تعینات کریں، ایک نیوٹاﺅن اور سنگار کا کاروبار چلائے گا، دوسراپانی بجلی اور شہر کے دیگر مسئلے دیکھے گا۔ دھرناختم ہونے کے اگلے روز بچے خواتین پانی کی برتنیں سروں پہ اُٹھائے سڑک پر کھڑی تھیں۔سڑک پر دُور دُور تک شیشے اور پتھر بکھرے پڑے تھے اور درمیان میں دوتین ٹائر جل رہے تھے۔وہاں سڑک پر مجھے اپنا بچپن دکھا،وہ بچہ سکول کابیگ پیٹھ پہ باندھے رکشے سے اُترتے ہی تیزی سے پنکچروالے کی دکان سے ایک ٹائرگھماتے ہوئے سڑک تک لے آیا۔کولڈرنک کی کالی بوتل لی، قریب کھڑے موٹرسائیکل سے پٹرول نکالا،پولیس والے سے ماچس مانگی اور ٹائر کو آگ لگا دیا۔ میرے بچپن میں جن لوگوں نے اپنی تقریروں میں جونعرے لگائے تھے،وہ امریکہ بھی گھوم آئے اور اُنہوں نے ضیاالحق کے مزار پر فاتحہ بھی پڑھی۔پانی کی آگ میں جلتا ہُواشہررات سے پہلے سارا تماشہ بھول چکاتھا،سڑک پرصرف اُس بچے کاجلایاہوا ٹائر اگلی صبح تک جل رہا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے