(یہ مقالہ نومبر 1990ءمیں لوز چیذغ کے زیر اہتمام شیرانی صاحب کی فکر اور شخصیت کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا)۔  آج کے ا س پر وقار محفل کے انعقاد کےلئے کچھ اور عرض کرنے سے پہلے میں لوز چیذغ کے تمام ارکان اور خصوصی طور پر محترم استادجناب صبا دشتیاری اور جناب ڈاکٹر شاہ محمد مری کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور اس تقریب کو خوش اسلوبی اور کامیاب طور پر منانے کا بندوبست کرنے پر ان کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس قسم کی تقریبات سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری نئی باشعور نسل میں بیداری کے آثار واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ اس نسل کے روشن خیال لوگ انسانی زندگی کی اعلیٰ او ربلند قدروں کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ وہ اندھیروں سے نکل کر روشنی کی فضاﺅں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ وہ پرانے گلے لڑے غلامانہ رواجوں اور رسومات کی زنجیروں کو توڑ کر نفرتوں کی جگہ محبت اور رواداری کے راستے پر قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنے لئے ایک نئے مستقبل کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے وہ اپنے نقش قدم میں ایسے نشان دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی صحیح رہنما ئی کر سکیں۔ ان پر امید خواہشات کو اگر ہم تھوڑی دیر کےلئے ایک طرف رکھ دیں اور آج کی اس تقریب پر ایک طاہرانہ نظر دوڑائیں تو میرے اپنے خیال میں ایسی تقریبات منانے کا یہ رنگ بھی کچھ نا مناسب اور عجیب و غریب سا نظر آیا ہے ۔ کیوں کہ ایسی تقریبات منانے کا ایک اچھا رنگ تو یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے مشہور و معروف ہستیوں کی یاد تازہ کرنے کےلئے ہو جو اس وقت موجود نہیں، جو اپنی زندگی اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی سر بلندی آگہی، پہچان ، خود داری اور آزادی کے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے کےلئے وقف کر چکے تھے۔ ایسی تقریبات میں انکی زندگی اور کردار کی نمایاں خصوصیات اور کارناموں کو یاد کرکے دلوں میں امنگ تازہ کی جاتی ہے۔ اور اپنے منزل کے راستے متعین کئے جاتے ہیں اور رکاوٹوں کو آسانی سے ہٹا کر آگے بڑھنے میں تیزی لائی جاتی ہے ۔ ایک رنگ یہ بھی ہے کہ موجودہ کسی مقبول رہنما یا روشن فکر شخصیت کے احترام میں تقریب کا انتظام کرکے ان کے افکار اور بلند مقاصد سے ذہنوں کو روشن کیا جا تاہے۔ یا پھر ایک ادبی علمی اور سماجی محفل ہو جس میں لکھنے والے مختلف موضوعات پر مضامین پڑھیں۔ کوئی اچھا افسانہ سنا جائے یا شعر و شاعری سے لطف اٹھایا جائے۔ مگر آج کی اس تقریب کا انداز تو کم از کم میری سمجھ میں بالکل نہیں آتا۔کہ کسی زندہ سلامت باکمال ہستی کو سامنے بٹھا کر اس کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائےں جائیں۔ کچھ دن پہلے مجھے آج کی تقریب میں شرکت کرنے کا دعوت نامہ محترم جناب صبا دشتیاری اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے مہربانی کرکے دیا تو کچھ اسی قسم کی باتیں اس تقریب کے بارے میں کرکے میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ مگر ان دوستوں کا خلوص کچھ اور رنگ دکھا رہا تھا۔ حکم یہ ہوا کہ مقالہ وغیرہ لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ صرف آ پ کو محفل میں بیٹھ کر دوسروں کی ارشادات کو سننا ہوگا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ مقالہ پڑھنے کی بات ان کے ذہنوں سے اتری نہیں تھی۔ مگر میرے لئے مشکل یہ ہے کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا کوئی آسان بات نہیں۔ یہ نہیں کہ میں اپنے دیرینہ دوست یا ساتھی کا کردار بیان کرتے ہوئے اپنی کرامات بھی ساتھ ساتھ بیان کرتا رہوںگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ایک گہرے دوست اور ساتھی کو کوئی بھی اپنے آپ سے الگ وجود خیال نہیںکرتا۔ اور اگر کوئی ا پنے دوست کی تعریف کررہا ہو تو ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ خود اپنی تعریف کر رہا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے آپ سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ایک ایسے ہی دوست ساتھی پروفیسر جناب عبداللہ جان جمالدین کے احترام میں ایسی ہی ایک نہایت ہی پروقار تقریب منائی گئی تھی۔ بہت دوستوں نے ان کی شخصیت پر مقالے پڑھے آخر میں جب وہ خود اپنا مقابلہ سنانے کےلئے بلائے گئے تو آپ سب دوستوں کو ان کے یہ الفاظ ضرور یاد ہوں گے کہ ”جس عبداللہ جان کے بارے میں آپ لوگوں نے تعریفیں کیں وہ تو مجھے کہیں نظر نہیں آتا“ ۔بہرحال اب بار سر پر آہی گئی ہے تو میں بھی تعریفیں ضرور کروں گا۔مگر اپنے نہایت ہی محترم ساتھی اور دوست جناب کمال خان شیرانی کی نہیں بلکہ ایک اور بہت ہی محترم شخصیت کی تعریف کرنی ہے جو آج اس دنیا میں موجود نہیں ۔ مگر اس شخصیت کی تعریف کرنے سے پہلے میں اس علاقے کے بارے میں چند مختصر باتیں کرنا چاہتا ہوں جس علاقے سے محترم جناب کمال خان شیرانی تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ مشہور علاقہ کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے ۔ جو شین غر کے نام سے شہرت رکھتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان پہاڑوں کا حسن چلغوز، زیتون اور مختلف اقسام کے درختوں، پودوں اور جنگلات سے قائم تھا مگر اب یہ پہاڑ جنگلات سے محروم کردیے گئے ہیں۔درختوں کی لکڑیاں سردیوں میں لوگوںکو اپنی گرمی پہنچا کر راکھ میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ یا بڑے بڑے لوگوں کے بنگلوں میں خوبصورت آرام دہ فرنیچر کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یہاں کے لوگ صدیوں سے غربت،اور جہالت کی زندگی گزارے چلے آرہے ہیں اور قدیم قبائلی رسومات و رواجات کی زنجیروں میں اب تک جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شین غر،یا سر سبز پہاڑ، کے اس مختصر تذکرے کے بعد اب میں آپ کی توجہ دوبارہ اس شخصیت کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو تعریف کے قابل ہیں۔ علاقہ شین غر پر چھائی ہوئی جہالت کے اندھیروں اور غربت کی زندگی سے تنگ آکر یہ انسان کسی وقت ان اندھیروں سے نکل کر روزگار اور کاروبار کی غرض سے برصغیرکے مشرقی کناروں اور اس وقت کے
بنگال تک پہنچا۔ ایک نئی زندگی دیکھی شعور میں روشنی پیدا ہوئی ۔ اور وہاں سے واپسی پر ارادہ کرلیا کہ جہالت کے ان اندھیروں میں انسانیت کی زندگی گزارنا مشکل ہے۔ اسی لئے اس نے اپنے بڑے بیٹے کو ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اسے جہالت کے اندھیروں میں سے اپنے علاقے کے اولین اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہ شخصیت ہمارے اس باشعور ساتھی اور دوست محترم کمال خان شیرانی کے محترم والد تھے جن کا نام تھا عیسیٰ خان شیرانی۔ یہ اسی محترم شخصیت کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج آپ سائیں کمال خان شیرانی کی شخصیت اور فکر کے حوالے سے ”لوز چیذغ“ کے زیر اہتمام اس پُر وقار اور باشوکت سیمینار میں شرکت کرکے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ کہ آپ ان باشعور معقول رفیقانِ سفر میں شامل ہیں جو اعلیٰ انسانی قدروں کی مشعل ہاتھوں میں اٹھائے اپنی پہچان کی منزل پہ ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود گامزن ہیں۔ اعلیٰ انسانی قدروںکے حصول کےلئے ہر انسان میں چند خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور اہم خوبی یہ ہے کہ ذہن علم کی روشنی سے منور ہو۔ اسی روشنی میں کئی اور خوبیوں کو اپنایا جا سکتا ہے۔ دلکش اور مو¿ثر طریقے سے اچھی تقریر کرنا‘بہتر سے بہتر گفتگو کرنا‘مطالعہ کرنا‘ ادب میں مہارت حاصل کرکے مختلف موضوعات پر مضامین لکھنا۔ اچھے افسانے اور مقالے لکھنا۔ ناول لکھنا۔ اچھے اشعاراور نظمیں تخلیق کرنا۔ مصوری میں کمال حاصل کرنا۔ اچھا سنگ تراش بننا۔ ناٹک یا ڈرامہ میں کردار کرنا ‘مختلف کھیلوں میں حصہ لینا اور کسی ایک یا ایک سے زیادہ کھیلوں میں مہارت حاصل کرکے نام پیدا کرنا۔ ایسی خوبیاں ہیں جنہیں اپنے آپ میں پیدا کرنے کےلئے ہمارے ہر جوان کی طرف سے توجہ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اپنے آپ مین زیادہ سے زیادہ خوبیاں پیدا کرکے ہی اپنے لوگوں، وطن اور سر زمین کی سر بلندی میں مفید بنا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خوبیاں رکھنے والے جوان ہی اچھے سیاست دان، رہنما اور سماجی کارکن بن سکتے ہیں۔  انسانی خوبیوں کے بیان میں ایک اور بات کا ذکر غور کے قابل ہے کہ انسان بہت قدیم وقتوں سے ہتھیار بناتا اور استعمال کرتا چلا آرہا ہے ۔ پتھر کے زمانے میں اس نے نوکیلے پتھر تلاش کرکے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے……..تیر کمان اور نیزے کا دور آیا۔ بارود ایجاد ہوا تو بندوقوں اور توپوں کا رواج ہوا۔ ترقی ہوتی گئی اور آج کے پیچیدہ اور خود کار قسم کے عجیب و غریب ہتھیاروں کا دور چل رہا ہے۔ ہتھیاروں کے بارے میں ان مختصر باتوں کو اس لئے بیان کیا گیا کہ اس میں بھی ایک قسم کی خوبی کی بات ذہن میں آگئی اور بات کچھ ایسی ہے کہ ہتھیار تیر کمان ہو یا کوئی خود کار قسم کی مشین گن‘ کندھے سے لٹکا کر گھومنا پھر نا کوئی خوبی نہیں۔ جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ مگر ان سے کھیل کے میدان میں اچھی سے اچھی نشانہ بازی کرنا ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ہتھیار نہ ہوں تو کسی پتھر کا نشانے پر ٹھیک لگا دینا بھی ایک بڑی خوبی ہے۔ اس سلسلے میں ایک نہایت ہی افسوس ناک بات یہ ہے کہ طالب علم درسگاہوں میں قلم اور کتاب کی بجائے ہتھیاروں کو اپنے زیور بنا کر ان کے ذریعے ڈگریاں حاصل کریں ۔ یا کسی محترم استاد کو ڈرانے دھمکانے کےلئے استعمال میں لائیں۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ جس قسم کے نوجوان طالب علم قلم اورکتاب کے بجائے ہتھیاروں سے دل بہلاتے ہیں اپنی مقدس درسگاہوں کی تقدس کا خیال نہیں رکھتے، اپنے استادوں کا احترام نہیں کرتے ۔ ان کی قسمت میں جہالت ، قدامت، وحشت اور بربریت کے اندھیروں اور صفحہِ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کے انتظار کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے