مصنف: واحد بخش بزدار
اشاعت: سن ندارہ
قیمت:300روپے
صفحات :366
پبلشر: بلوچی اکیڈمی کوئٹہ
”براہوئی۔ دراوڑی اور سندھ تہذیب“ واحد بخش بزدار کی تازہ ترین کتاب ہے ، جو براہوئی زبان کے حوالے سے تقابلی لسانیات کے موضوع پرہے ۔ واحد بزدارطویل مدت سے بلوچی زبان وادب، براہوئی زبان اور ثقافتی لسانیات پر مسلسل کام کر رہا ہے۔ وہ ایک بسیار نویس محقق ہے۔ نت نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرتا ہے ۔ اس کے تحقیقی مقالات ملکی وغیر مکی موقر جرائد ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب اس کی مسبوط تحقیقی تصنیف ہے ۔ جسے کل بائیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کتاب کے دیباچے میں مصنف وجہِ تصنیف پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتا ہے: ”براہوئی ۔ دراوڑی اور سندھ تہذیب “ میں براہوئی زبان کو کسی خاص طرزِ فکر یا مخصوص نقطہِ نگاہ کے بغیر محض لسانی حقائق اور شواہد کی روشنی میں دیکھنے اور پر کھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس ضمن میں دستیاب مواد کی روشنی میں سمیری ، آکادی ، بروشسکی سمیت انڈوایرانی ، انڈو آریائی اور کافر گروہ کی زبانوں سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ جس طرح کہ براہوئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دراوڑی زبان کے گروہ سے متعلق ہے اور اس ضمن میں بعض ماہرین لسانیات نے اچھا خاصا تحقیقی کام بھی کیا ہے ۔ اگر چہ براہوئی اور دراوڑی میں چند مشترک عناصر کی مطابقت اور مماثلت سے بہر طور انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم میر عاقل خان مینگل کی رائے کی طرح اس جائزے سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس مشترک عنصر کے باوجود بھی براہوئی زبان کی دراوڑی گروہ سے متعلق قرار دینے کے سلسلے میں محض ”توڑ جوڑ“ اور دور از کار مفروضوں کو بنیاد بنانے کی بجائے ابھی تک غیر جانبدار انہ بنیادوں پر کام کی اشد ضرورت ہے۔“ پہلے باب میں واحد بزدار نے انتہائی محنت ، جگر کاوی اور عرق ریزی سے براہوئی صوتیات اور دیگر قدیم زبانوں کے درمیان مماثلتوں کا جائزہ لیا ہے ۔ اسی طرح دوسرے باب میں براہوئی اور قدیم زبانوں کی تشکیل مماثلت پر اچھا خاصا مواد فراہم کیا ہے۔ جس سے تحقیق کے نئے باب روشن ہوگئے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس نے اگلے ابواب میں براہوئی کی مفعولی حالت ، مفعولِ ثانی ، اضافی حالت، اوزاری حالت، معیتی حالت ، حالتِ مکانی، فعل ، متعدی فعل ، سبیی نشانیہ ، ماضی کی علامتوں ، ماضی کے تنے ، براہوئی ماضی نشانیہ ، براہوئی ماضی، غیر ماضی علامتیں ، ضمائری لاحقے ، دراوڑی جنس اور تعداد، فعل ِ مستقبل امکانی پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ واحد بزدار نے براہوئی کے حوالے سے تقابلی لسانیات پر جس قدر مواد فراہم کیا ہے اس کی بنیاد پر براہوئی اور دیگر قدیم زبانوں کی لغت اور گرامر نئے انداز میں مرتب کی جاسکتی ہے ۔واحد بزدار نے براہوئی زبان پر لکھی جانے والی تمام کتابوں اور تحقیقی مقالات کا ذکر کیا ۔ ان کے حوالے دیے ہیں۔ ماہرین لسانیات کے نتائج سے اختلاف کیا ہے ، اور ان کی کارآمد باتوں کو سراہا بھی ہے ۔ اس نے کتاب کے آخر میں انگریزی ، اردو ، فارسی اور دیگر زبانوں میں اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات کی بہت ہی طویل کتابیات دہی ہے ۔ جو اس کے وسیع مطالعے کا پتہ دیتی ہے ۔ واحد بزدار نے نہایت ہی سادہ طورپر موضوع کی باریکیوں کو قاری پر واضح کر دیا ہے ۔ واحد بزدار کا کام تقابلی لسانیات پر ایک مستند حوالہ ہے ۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تقابلی لسانیات پر لکھنے والے محض انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور براہوئی زبان پر جدید تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کیوں کہ دیگر محققین نے جس قدر براہوئی زبان پر کام کیا ہے ، اس میں متضاد نظریات کا تتبع کیا ہے۔ انہوں نے کبھی تو اس زبان کو ہندو آریائی خاندان کی شاخ ہندو ایرانی کے ایرانی گروہ کے زمرے میں شامل کیا ہے ۔کبھی اسے ایک دراوڑ زبان اور کبھی ایک تورانی زبان۔ ان کی متضاد تحریروں نے براہوئی زبان کی حقیقت پر شک وشبہات کے پردے ڈال دیے ہیں۔ واحد بزدار نے براہوئی کے متعلق متضاد نظریات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے ۔ غلط نظریات کی تردید دلائل سے کی ہے ۔ واحد بزدار کی زیرِ نظر کتاب براہوئی زبان کے نئے نئے گوشوں کو واضح کرتی ہے ، جن پر ابھی تک تحقیقی کام نہیں ہوا ہے اور اگر کچھ ہوا بھی ہے تو وہ غیر تحقیقی ، اور غیر معیاری ہے ۔ مختصر یہ ہے یہ کتاب ہر محقق کو دعوت تحقیق دیتی ہے ۔ واحد بزدار کاکام اس موضوع پر ابھی تک جاری ہے اور وہ اس کے ان تمام پہلوﺅں کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہاہے، جن پر تاحال تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
I am extreemly sorry but he is unaware of basic linguatics.
understanding brahui language is not that easy