وہ ایک کہانی لکھ رہا تھا۔ ایک ایک کرکے اپنے کرداروں کو تشکیل دے رہا تھا۔ اس کے ہاتھ بڑی تیزی اور پُھرتی سے کام کر رہے تھے۔ میں اُس کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔
میرے اکثر دوستوں نے مجھ سے کہا تھا ، ”فیضی، تم بھی کوئی کردار بن سکتے ہو۔ کبھی اُس کے پاس جانا دیکھنا وہ تمہیں کوئی کردار ضرور دے گا۔“
لیکن مجھے کبھی یہ گمان تک نہ گزرا تھا کہ میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہوں۔ لہذا میں ہمیشہ اُس کا سامنا کرنے سے گریزاں رہا۔ لیکن آخر کار دوستوں نے مجھے مجبو ر کردیا۔اُن کی یہ ساری کوششیں دیکھ کر مجھے بھی کچھ کچھ احساس ہوچلا تھاکہ شاید میں کسی کردار میں کام کرسکتا ہوں۔ اورمیں نے من ہی من میں یہ طے کرلیا تھا کہ اگر میں کسی کردار میں فٹ آسکوں گا تو وہ کسی ’ہیرو‘ کا کردار ہوگا۔
میں نے خودکلامی میں کہا ”مجھ سے پہلے دو ایسی شخصیتوںنے میری صلاحیتوں کی تعریف کی ہے جو خود بھی ایسی آزمائش کا سامنا کر چکے ہیں۔“ اب دھیرے دھیرے مجھے یقین ہوچلا تھا کہ میں کسی بھی کردار میں اپنے قدم جما سکتا ہوں لیکن ’ہیرو‘ کا کردار بہت بہتر طریق سے کر سکتا ہوں۔ بس پھر کیا تھا، میں نے تیاری شروع کردی۔ زیادہ سے زیادہ مشق کرتا رہا۔ دوستوں نے میری محنت کا یہ عالم دیکھا تو کہنے لگے”فیضی صرف تم ہی اُس کی کہانی میں ’ہیرو‘ کا کردار ادا کر سکتے ہو۔“
آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب مجھے اُس کے سامنے پیش ہونا تھا۔ عادت کے برخلاف اب کی بار میں وقت پر بتائے ہوئے مقام پر پہنچا۔ لیکن پھر بھی مجھ سے پہلے ہزارہا لوگ جمع ہوچکے تھے تا کہ اُن کو بھی اُس کی کہانی میں کوئی کردار مل سکے۔ میں دور کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔اِس دوران میں اُس کی حرکتوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
اُس نے سب سے پہلے ایک شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا لیکن اُن لفظوں کے ادا ہوتے ہی وہ شخص کتا بن گیا۔ پھر ُاس نے صاف لفظوں میں کتے کو بھونکنے کا حکم دیا۔ جب کتے نے بھونکنا شروع کیا تو اُس کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُسے بھونکنے کا یہ انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ اُس نے اپنا ایک کان کجھاتے ہوئے ، دایاں پیر کتے کے دُم پر رکھا۔ کتے کو شاید بہت تکلیف ہورہی تھی۔ وہ بے چین یہاں وہاں زور لگا کر اپنی دُم چھڑانا چاہ رہا تھا۔ وہ کہنے لگا ، ”تم کتے کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ یہ کوئی معمولی کردار نہیں۔“
جونہی اُس نے اپنا پیر کتے کی دُم پر سے ہٹایا، کتا فوراً ایک بڑے ہاتھی میں تبدیل ہوگیا۔ وہ ایک بار پھر اُس کی حرکتوں کو دیکھنے لگا۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے باربار اپنا پیٹ کجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُسے دوبارہ غصہ آیا۔
”تم سے تو یہ کام بھی نہیں ہوسکتا ۔ ہاتھی کے تو دو ہی کام ہیں۔ اول تو خوب کھائے اور دوسرا خوب کام کرے۔اور تم کو ہاتھی بنتے ہی یا تو کچھ کھانا چاہیے تھا یا کوئی کام کرنا مگر۔۔۔۔۔“
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیااور کچھ دیر سوچنے لگا۔ اُس نے اپنا سر اٹھائے بغیر آسمان کی طرف دیکھا تو اس کے سر پر آسمان نہیں تھا۔ پھر اس نے نیچے دیکھا کہ آسمان زمین پر گر پڑا ہے اور زمین آسمان کی بھاری بھرکم بوجھ تلے شدتِ درد سے کرِا رہی ہے۔ شاید اس کے دماغ میں کوئی اور منصوبہ گردش کر رہا تھا ۔ اُس نے چٹکی بجائی۔چٹکی کے بجتے ہی وہ ہاتھی سے بچھو بن گیا۔ بچھو نے پیدا ہوتے ہی اُس کے دائیں پیر کی چھوٹی انگلی پر ڈھنگ ماری۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ”خوب ۔ یہ کردار تمہارے لیے ٹھیک رہے گا۔ “
پھر اُس نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے جھٹک دیا، اور وہ رومال بن گیا۔ اُس نے رومال سے اپنی ناک صاف کی اور اُسے زمین پر پھینک دیا۔ زمین پر گر تے ہی رومال بندر میں تبدیل ہوا۔ بندر نے بنتے ہی اُس کے کاندھوں پرچھلانگ لگائی اور بالوں سے جُو پکڑ کر کھانے لگا۔ ایک بار اُس کا موڈ خراب ہونے لگا۔ گویا اُسے یہ حرکت بھی پسند نہیں آئی۔ اُس نے بندر کا ایک ہاتھ دبوچ لیا اور اُسے اِس قدر زور سے زمین پر پٹخ دیا کہ بندرکا سر پھٹ گیا۔ اُس نے چلاتے ہوئے کہا ”بندر کو سب سے پہلے اپنے جسم کی جوو¿ں کو پکڑنا ہوتا ہے، پھر اوروں کے۔“
میں نے دیکھا بندر کا سر پھٹا ہوا تھا اور وہ اپنی جگہ سے ہل تک نہیں سکتا تھا۔ لیکن اُس کی آنکھو ں میں اب بھی جان باقی تھی۔ اُس کی آنکھیں کہنے لگیں ”مجھے دکھ ہے، اے تخلیق کار، اے داستان گو، مجھے شدید دکھ ہے کہ آپ نے مجھے یوں پستی پر پھینکا۔بھلے مجھے کوئی کردار نہ دیتے۔ لیکن پستی دوہری اذیت کا سبب ہے۔ “
دفعتاً وہ چلایا۔ ”بندروں کو آنکھوں سے بولنے کی اجازت ہرگز نہیں۔“
اُس نے بندر کی آنکھیں نکال ،ہوا میں اچھال دیں۔ میں نے بندر کی آنکھوں کو ہوا میں بلند ہوتے دیکھاجو کافی اونچائی پر پہنچنے کے بعد نیچے گرتے وقت میرے قدموں پر پڑیں۔ میں نے نیم جان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جو نم ہوچکی تھیں۔ آنکھوں کی سانسیں پھول رہی تھی لیکن بند ہونے سے پہلے انتہائی نحیف آواز مجھے سنائی دی ”گو ہاتھ کو۔۔۔ آنکھوں میں تو ۔۔“۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا بندر کی آنکھوں نے بول کر حق گوئی کی ہے۔ وہ غلط ہیں جو کہتے ہیں بندروں کو آنکھوں سے بولنے کی اجازت نہیں۔
آنکھوں نے دم توڑ دیا۔ اُس نے دوبارہ اس نیم جان اندھے بندر کا ہاتھ پکڑ کر اسے ہوا میں اچھال دیا۔ ہوا میں اچھلتے ہی وہ کبوتر بن گیا۔ اور جونہی کبوترکی نظریں نیچے بکھرے گندم پر پڑیں وہ اسی طرف لپکا۔
وہ خوش ہوا اور مسکرانے لگا۔ ہر بار جب وہ مسکراتا تو شیطان کی بو آتی ۔ میں حیران تھا کہ مجھے کیونکر یہ محسوس ہورہا ہے کہ وہ واقعی شیطان کی بو ہے۔ حالانکہ میں نے کبھی شیطان کو دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی سنا تھا کہ شیطان کی کوئی الگ بُو بھی ہوتی ہے مگر یہ مجھے کیوں اس کی بُو۔۔۔۔۔ میں نے اپنے خیالوں سے شیطان کا تصور جھٹک دیا اور اُس کے کرداروں کی تشکیل پر غور کرنے لگا۔
”تم کبوتر ہی ٹھیک رہوگے۔ کبوتر کا تو کام ہی یہی ہے کہ آرام سے پڑا رہے اور دانے چگتا رہے۔“۔
پھر اُس نے ایک اور شخص کا ہاتھ پکڑ کر اس پر پھونک ماری اور وہ راج ہنس بن گیا۔ ہنس میں تبدیل ہوتے ہی وہ خاموشی سے پاس ہی بہتی ہوئی ایک چھوٹی سی ندی کنارے چلا گیا اور اپنی چونچ پانی میں کنگھالنے لگا۔
”نہیں نہیں یہ عام سا کردار تو انتہائی روایاتی ہے۔ ہنس کو ہمیشہ نیک نہیں رہنا۔ کبھی کبھی بدی کا ذائقہ بھی چکھنا چاہیے۔“
یہ کہتے ہوئے اُس نے کہیں سے ایک عصا برآمد کی اور ہنس کی گردن پر وار کیا، جس سے وہ اونٹ میں تبدیل ہوا۔ اونٹ بننے کے بعد بھی اُس کی خاموشی اور پرسکونی میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ اُس نے جب دیکھا کہ اونٹ بھی ساکت پانی میں کھڑا ہے تو اسے مزید غصہ آیا۔ اُس نے ہاتھ ہوا میں اچھالتے ہوئے بلند گرجدار آواز میں کہا ”تمہاری خصلت تمہیں تباہ کردے گی۔“
اُس نے اونٹ کی بایاں ران مروڑ کر اس قدر زور سے جھٹکا دیا کہ وہ تن سے الگ ہوگئی۔ ران کو لیکر اس نے زور سے اونٹ کے پیٹ پر دے مارا۔ ران اونٹ کے جسم پر پڑتے ہی ایک دیو قامت شیر بن گیا۔ شیر نے زمین پر قدم رکھتے ہی اونٹ کی ران والی زخم پر چھاٹنا شروع کر دیا اور لمحوں میں زخم بھر گیا۔ پھر شیر نے اپنا منہ کھولا اور اونٹ خوشی خوشی اُس کے منہ میں چلا گیا۔ جب اونٹ پوری طرح غائب ہوچکا تو شیر رونے لگا۔
اُس نے چلاتے ہوئے کہا ، ”اے ہنس، تیری خصلت تجھے لے ڈوبی۔“
پھر اُس نے ایک ہاتھ میں مٹھی بھر مٹی لی اور شیر پر ڈال دیا۔ مٹی کے پڑتے ہی ایک بہت بڑی آگ بھڑک اٹھی اور شیر لمحوں میں جل کر خاکستر ہوگیا۔ لیکن شیر کی آخری چیخ یوں گونجتی رہی۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
”کوئی یہ شعر نہیں سنے گا۔ فضا تم اسے نہیں پھیلاو¿ گی۔“ وہ چلایا۔ اور آواز غائب ہوگئی۔
پھر اُس نے دوسرے لوگوں کی طرف ایک نظر دوڑائی اور پاس ہی رکھی ہوئی بالٹی سے ایک لوٹا بھر لیا۔ میں ایڑیوں کے بل کھڑے ہوکر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا کہ لوٹے میں کیا ہوسکتا ہے۔۔ پانی یا کچھ اور۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ لوٹے میں گٹر کا بدبودار اور غلیظ پانی تھا۔ اُس نے گٹر کے پانی سے بھرے لوٹے کو ہوا میں اچھا دیا۔ پانی میرے اردگرد کھڑے تمام لوگوں پر گرا۔ اور وہ سب چوہے بن گئے۔اور دوڑتے ہوئے گٹر کے پانی سے بھری بالٹی میں غوطہ زن ہوئے۔
اب میں اکیلا رہ گیا تھا ۔ مجھے خوشی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت کا سامنا تھا۔ خوشی ایک کردار کے لیے اور پریشان غلط کردار کے لیے۔ کیونکہ بندر اور شیر کے حشر کا منظر اب بھی میری ابروو¿ں کو پکڑلٹک رہا تھا اور ہر لمحے میری آنکھوں میں لاتیں مار رہا تھا۔
اُس نے اپنا بیگ اٹھایا اور ایک ایک کرکے بچھو، کبوتر، شیرکی راکھ اور چوو¿ںکو گٹر کے پانی بھرے بالٹی سمیت بیگ میں رکھنے لگا۔ بندر کی آنکھیں یونہی پڑی تھیں۔ بے بس، بے جان، ساکت۔
پھر اُس نے سارا منظر لپیٹ کر پھاڑ دیا اور چلتا بنا۔ مجھے اپنے نظرانداز ہونے پر حیرت ہوئی۔ میں نے آواز لگائی ”مجھے کوئی کردار نہیں دیا؟“
اُس نے مڑ کر میری طرف دیکھا او رمیرا سراپا جائزہ لیا۔
ہنستے ہوئے وہ کہنے لگا۔ ”کہانی تو ختم ہوگئی اور اس میں مزید کسی کردار کی کوئی گنجائش نہیں۔ خاص کر تمہارے لیے تو کوئی کردار نہیں۔“
میںنے لرزتے ، کپکپاتے ہونٹوں کو سہارا دیا۔ ”مگر ہیرو“
”ہر کہانی میں ہیرو کا ہونا ضروری نہیں“۔
میں نے پھر پوچھنے کی ہمت کی۔ ”لیکن کوئی کردار۔۔ کوئی سا بھی“۔
یہ سنتے ہی اُس نے اپنا بیگ میرے سر پر دے مارا۔ اور میں یک سالہ بچہ بن گیا۔ میرے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ مجھے اپنی عریانی کا شدید احساس ہورہا تھا۔ میں نے اپنی جگہ سے ہلنا چاہااور پہلا قدم آگے کی طرف اٹھایا۔ ابھی میرا پیر زمین پر پڑا ہی نہیں تھاکہُ اس نے ایک تیز دو دھاری تلوار، جو اُس کی ایک ٹانگ پر بندھے نیام میں تھی، بڑی تیزی سے نکالی اور میری وہ ٹانگ جو آگے بڑھنے کو تھی، کاٹ دی۔
میں نیچے گر پڑا۔ میرا خون بہہ رہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا۔
”ایک سال کے ننگے بچے کو چلنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور تم بغیر کسی سہارے کے۔۔۔۔۔ مجھے پتہ تھا تمہیں کسی کردار کے قابل نہیں۔“
اتنا کہہ کر اس نے میری آنکھیں نوچ لیں۔ میری زبان باہر کھینچ کر اُسے کاٹ دیا۔ زبان کے کٹتے ہی میری آواز آزاد ہوگئی۔ اور فضاو¿ں میں گونجنے لگی۔ وہ بڑی تیزی سے بھاگنے لگا۔
وہ بھاگتا جارہا تھا اور میری آواز اس کے پیچھے دوڑتی جارہی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے