”یہ مِٹی شاعری کی، فَن کی مِٹی ہے
یہاں پر اَلمِیوں کے قافئیے اور رَنج مِیں بھیگی رَدیفیں
سادگی اور مِہر کی بحریں
ع±روضِ زندگانی سے م±زّین ر±وح پَرور، سَرمدی غزلیں
خِرَد کی و±سعتوں کی خیر میں لپٹی ہوئی نظمیں
محبت کے نشے مِیں ڈوبتی ہیں اور ابھرتی ہیں۔

یہاں پر دیوتاو¿ں دیوِیوں کے اَن۔کہے مصروں کے سائے سانس لیتے ہیں
یہاں سایَوں کی اپنی م±نفَرِد دنیا ہے
جن کی قامتیں بولان اور کوہِ س±لیماں سے بھی ا±ونچی ہیں
یہ سائے اپنی مِٹی پر ج±ھکے رہتے ہیں،
خ±ون اور نِیستی کے داغ دھوتے ہیں۔

یہ سائے، روشنی کی کوکھ سے جنمے ہوئے سائے
اندھیروں کے کبھی ب±ہتان سِہتے ہیں
یا جلّادوں کی نظروں میں کَھٹکتے ہیں
کبھی داغے گئے اپنوں کے طعنوں سے
کبھی یہ مَسخ کر کے دشت میں پھینکے گئے
سفّاک طَرفوں سے

 

یہ ہر صَف میں کھڑے ہیں، غَرض سے بالا
ج±دا ہیں راستے اِنکے مگر یہ ”عِشق” کے مرکز میں رہتے ہیں
یہ سائے دوسرے خِطّوں مِیں یا تاریخ کے اَدوار مِیں پَلتے ہوئے
سایوں کی خ±وبی سے کسی طرح نہیں کوتاہ
اِنہیں ح±رمت کی اَگلی مَنزِلوں، تاریخ کے اَوراق کی خ±وشبو میں پاو¿ گے
یہ سائے دَشتِیاری ہیں
یہ سائے شاہ م±حمد ہیں
یہ سائے دیومالائی زمینوں کے بدن میں جان،
خوابوں میں م±جّسِم خواب، رستوں میں پَڑا رستہ ہیں
دائم ربط ہیں یعنی خداوندِ زماں کا خ±لیہءاوّل ہیں،
جاری ہیں، م±سلسِل ہیں”

 

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے