یوسف علی خان جو خود کتاب دوست تھے اور کتاب بینی کے رسیا ۔ انہوں اپنی علمی استطاعت بڑھانے کے لیے کتب بینی سے فائدہ اٹھایا اور یہی ذوق عام کرنے کے لیے انہوں نے جامعہ عزیز یہ جھل میں ایک لائبریری قائم کی۔ انہوں نے انتہائی محنت ولگن سے مختلف علوم پر مبنی بڑی تعداد میں کتابیں خرید کر انہیں لائبریری کی زینت بنایا۔ اپنی لائبریری کے لیے ایک لائبریرین مقرر کیا۔ طالب علموں او رپڑھے لکھے لوگوں سے کتابوں سے حاصل معلومات کوشیئر کرتے رہے اور لوگوں کو کتاب بینی کی طرف متوجہ کرنے میں پیش پیش رہے ۔ یوسف کی لائبریری میں تاریخ ، زبان ، ثقافت ، سائنس اور دیگر علوم کے متعلق کتابوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ کتابوں میں پوشیدہ علوم کا سیکھنا کسی بھی قوم، زبان اور تاریخ کی نشوونما کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی کے لیے آکسیجن ، یازمین کی زرخیزی کیلئے پانی کی اہمیت۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آدمیت و تہذیب کتابوں کے علوم کو جاننے سے شائستہ ہوتی ہے ۔ علم و آگاہی شعور ودانش کتابوں میں پوشیدہ ہیں اورکتب بینی سے ذہنوں میں معلومات وعلوم کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ کتاب روشنی بکھیرتی ہوئی سماجی ارتقا میں معاون ہوتی ہے۔ یوسف علی نے لائبریری میں کتابوں کی سلیکشن انتہائی محنت ولگن سے کی ۔
یوسف علی خان اکثر جامعہ عزیز یہ کی لائبریری آتے‘ رجسٹر چیک کرتے ، کتب بین طالبعلموں اور دیگر افراد کی تعداد دیکھتے‘ ان سے رابطہ کرتے ۔ پڑھی گئی کتاب کے بارے میں قاری سے سوال وجواب اور کتاب سے ا خذ معلومات شیئر کرتے ۔ اور لوگوں سے ملتے اور انہیں کتب بینی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ۔
ایک بار یوسف علی خان جب تین چار ماہ بعد جھل آئے تو حسبِ سابق جامعہ عزیز یہ کادورہ کیا۔ طلباء و اساتذہ کرام سے ملے۔ ان سے تبادلہ خیال کیا ،طلباء اور عوام میں کتب بینی کا ذوق دیکھا۔ لائبریری کا رجسٹر چیک کیا۔ دوران رجسٹر چیکنگ انہوں نے مگسی قبیلے کے ایک بااثر شخص کو لائبریری کی ایک کتاب کو طویل مدت تک واپس جمع کرانے سے قاصر پایا۔ یہ دیکھ کر یوسف علی خان رجسٹر لے کر سیدھا اُس شخص کے گھر گئے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلتے ہی اس شخص نے نواب یوسف علی خان کو رجسٹر ہاتھ میں لیے دوازے کی چوکھٹ پر پایا تو حیران وششدررہ گیا۔ نواب صاحب نے ہاتھ ملایا اور مصافحہ کے بعد مہمان خانے میں حال واحوال ہوا۔اسے یہ سن کر انتہائی شرمندگی کا احساس ہوا کہ نواب صاحب رجسٹر لے کر وہ کتاب واپس لینے آئے ہیں جو انہوں نے پڑھنے کی غرض سے لائبریری سے لی تھی ۔ اور کافی عرصہ گزرنے کے باوجود واپس جمع نہیں کی۔ نواب صاحب نے کتاب وصول کی اور خود رجسٹر پر اس کا اندارج کیا ۔ اور رجسٹر پر نوٹ لکھ ڈالا ۔’’کہ کتاب پڑھ نے کے بعد انہیں واپس لائبریری کی زینت بنانا چاہیے، یہ صدقہ جاریہ ہے ۔ لائبریری کی کتابیں فرد کی نہیں اجتماع کی میراث ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے