( 23 اکتوبر1924۔۔۔۔۔۔15 جون2016)
میاں محمود ، ڈاکٹر خدائیداد اور امیر الدین جیسے نظریاتی ساتھی مرے تو پھر درمیان میں ایک غیر مشترک نظریات والی شخصیت اپنی جدیدیت والے فلسفے کے ساتھ میری باوقار دوستی میںآگئی، فاطمہ حسن۔ اپنی فطرت میں مہربان فاطمہ حسن نے اپنے حلقہِ احباب سے متعارف کرایا تو میں علم و ادب کی ایک نئی دنیا سے آشنا ہوگیا۔ مجھے محترمہ کا استاد پروفیسر اسلم فرخی ( پیدائش23 اکتوبر1924) بہت اچھا لگا۔’’ حلقہِ احباب‘‘ ویسے ہی مجھ سے سرزد ہوا، فاطمہ حسن تو اُس کی بہت اچھی شاگرد ہے۔
میں اصل میں ڈاکٹر اسلم فرخی کے ذہن کے لیے ’’ انسائیکلو پیڈیائی‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہتا ہوں ۔ اس لیے کہ آپ اس شخص کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتے، وہ نان سٹاپ، اپنے دھیمے ٹیچروں والے انداز میں موضوع کی تہیں کھولتا جاتا ۔اردو اورفارسی ادب سے متعلق کچھ بھی پوچھیے یہ انسائیکلوپیڈیا دو سیکنڈ کا وقفہ لے کر شروع ہوجاتا تھا۔سینکڑوں واقعات ، فارسی اور اردو کے سیکڑوں اشعار اس کی نوکِ زباں پر رہتے تھے۔ایسا حافظہ!!
اوراپنے بھائی انور احسن صدیقی کی طرح بغیر کسی جذباتی اتارچڑھاؤ کے ایک ہی ٹون میں بولتا جاتا۔ اس سوال کے جواب کا شجرہ نسب بیان کرتا جاتا، اس سے متعلقہ آس پاس کی باتیں بتاتاجاتا اور یوں ایک تفصیلی مضمون اور مقالہ بن جاتا۔ بس عام بول چال کے انداز گویا ایک پوری کتاب کا ایک سیر حاصل خلاصہ آپ کے سامنے بیان ہوجاتا۔
اور وہ اتنے کنڑول سے بولتا تھا، اتنی اچھی نپی تلی دھیمی رفتار سے بات کرتا تھا جیسے پرانے راکٹ ٹرک کا تجربہ کارڈرائیور ٹرک چلاتا ہو ۔سنجیدہ ، مہذب ،اور گراں گفتار ۔بہت خوش رفتار گفتگو۔ خوش گفتاری ایسی کہ لیکچر نماسٹائل میں آپ مسکرا بھی سکیں اور کھانس بھی سکیں۔ وضع دار استاد،سنگین و متین ، جیسے پرانے اساتذہ ہوتے تھے۔ اس کی گفتگو اس کی زندگی کی طرح ترتیب شدہ تھی۔ منظم، مربوط، مسلسل۔اس کی باتیں سن کر لگتا جیسے اس طویل عمر پانے والے شخص نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اچھی مصروفیت میں گزارا۔
وہ بہت غور سے ، بہت بردباری سے اور بہت صبر سے دوسروں کی بات سنتا تھا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھنے میں بھی کوئی آراستہ فقرے یا الفاظ استعمال نہیں کرتا تھا۔وہ ایک رواں اور آسان نثر لکھتا تھا۔ غیر ضروری تفاصیل سے گریز کرنا، ٹو دی پوائنٹ اپنی بات لکھنا، اور سلیس و عام فہم زبان استعمال کرنا۔
ایسی یادداشت یا تو فرخی صاحب کی تھی، یا پھر ہمارے ماما عبداللہ جان جمالدینی کی۔ اور ایک اچھی یادداشت ایک اچھے دانشور کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ان دونوں اصحاب میں ایک بات اور بھی مشترک تھی۔ دونوں90 سے زیادہ برس کی زندگی جیے۔( اسلم صاحب92 برس اورعبداللہ جان 94 برس )۔
فرخی صاحب ایک خوش پوش شخص تھا، ہمہ وقت تازہ بہ تازہ کلین شیوکیا ہوا۔وہ گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے میں بہت ہی مہذب انسان تھا۔بظاہر تو بڑا خاموش طبع۔ مگر جب کوئی بات چھڑتی ، کوئی موضوع ابھرتا تو پھر وہ سب سے زیادہ ، اور سب سے مدلل بات کرتا تھا۔
صاف ستھرا انسان، لباس میں، شباہت میں،گفتگو میں ،اور دل میں بھی۔
ہر اتوار کوگلشن اقبال میں اس کے ہاں پی ایچ ڈی کرنے والے اس کے شاگردوں کا مجمع لگ جاتا۔ اور ظاہر ہے کہ وہاں پی ایچ ڈیانہ سطح ہی کی گفتگو ہوتی۔ کسے دیکھو اپنا تھیسز چیک کرارہا ہوتا، کوئی نو آموز اپنے ڈاکٹریٹ کے لیے عنوان کی تلاش میں ہوتا۔ اور ڈاکٹر صاحب شطرنج کے روسی ماہر ویسپاروف کی طرح اکیلے آٹھ، دس کھلاڑیوں کو شہہ دے رہا ہوتا ۔ ایسا محقق، ایسا استاد کہ رشک آجائے۔
اس شخص کو ایک ہاتھ میں سوخربوزے اٹھاتے میں نے خود دیکھا ہے ۔ ہم جیسے مہمان ملنے والوں سے پر خلوص گفتگو بھی ساتھ چلتی۔سیاست ریاست کی باتیں بھی ہوتیں، بین الاقوامی ادب بھی چلتا رہتا، اور شاگردوں کی پی ایچ ڈی گیری بھی ساتھ ساتھ رہتی۔ ایک آدمی میں بہت سارے آدمی فٹ کیے تھے فطرت نے۔میں یہ سب باریکی سے دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے وہ ایک بھرپور اور بہترین استاد لگا۔
مجھے دوستوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ایک زبردست براڈ کاسٹر رہا،اور ایک اچھا ڈرامہ نگاربھی۔
وہ کراچی یونیورسٹی میں اردو سے وابستہ ہوا۔ وہ کچھ عرصہ رجسٹرار بھی رہا۔ ریٹائر ہونے پر انجمن ترقی اردو سے وابستہ ہوا۔
اس کی خاکہ نگاری بھی پڑھنے کے لائق تھی۔ دلچسپ، ریڈیبل اور فائدہ مند۔وہ بہت ہی اچھا خاکہ نگار تھا ۔ اس سلسلے میں ’’ گلدستہِ احباب ‘‘، آنگن میں ستارے اور ’’ لال سبز کبوتروں کی چھتری‘‘ اُس کی بے مثال تصانیف ہیں۔ دواور کے بارے میں بھی میں نے سنا ہے مگر میں خود انہیں نہیں پڑھ پایا: ’’ موسمِ بہار جیسے لوگ ‘‘ اور ’’ رونقِ بزمِ جہاں‘‘۔سارے پرانے ، اور رکھ رکھاؤ رکھنے والے بزرگوں کی طرح ڈاکٹر اسلم فرخی بھی بہت احترام کے ساتھ لوگوں کو یاد کرتا ہے۔ محبتِ انساں اُس کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ایک عظمت کی دھاک سی بیٹھ جاتی ہے مصنف کے لیے بھی اور اس شخص کے بارے میں بھی جس پہ یہ لکھا گیا ہو۔
فرخی صاحب ایک نیت کرٹک بھی تھا۔ اصلاحی ، نصیحتی اور اگلے کی عزت نفس کا خیال رکھنے والا۔ وہ تنقید برائے تنقید کا آدمی نہ تھا۔
بچوں کے لیے تو وہ بالخصوص ایک خوبصورت کہانی کار تھا۔اس شعبے میں اس قدر گرامی نام کا لکھنا بذات خود ایک احسن اور تقلید پہ اکسانے والا کام تھا۔ مین نے بچون کی آنکھون مین ان کہانیوں کے ہر اگلے فقرے کے لیے کشش دیکھی۔
محترم اسلم فرخی پیر پرستی کی حد تک عارف لوگوں کی قدر کرتا تھا۔ اس نے ایسی برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں لکھا بھی بہت۔
ڈاکٹر صاحب نے شاعری بھی کی۔ مگر میرا خیال ہے کہ تاریخ میں وہ ایک زبردست چھان پٹکی محقق اور ابلاغ بھرا، سمجھ میں آ جانے والا محنتی و مشفق استاد کے بطور یاد رکھا جائے گا۔
فرخ آباد( ہندوستان) جائے پیدائش تھی اس لیے وہ فرخی بنا۔عالم بیٹا بھی آصف فرخی کے نام سے مشہور ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا چھوٹا بھائی انور احسن صدیقی اپنے ساتھ فرخی نہیں لکھتا تھا۔
ہندوستان سے آنے کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ڈیڑھ سو روپے کی نوکری مل گئی۔ پھر ریڈیو پاکستان میں۔ پھر اردو ایم اے میں داخلہ لیا۔ اور1952 میں ایم اے کرلیا۔1957 میں اسے سندھ مسلم کالج میں اردو لیکچرری ملی اور پھر جلد ہی گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی نے خود اپنی تحقیق اور بڑے کام کے بطور ’’ محمد حسین‘‘ کی ذات، حیات اور اس کی تصانیف کا عنوان لیا۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ بہت عمدہ کتاب لکھی۔ 1962میں محمد حسین آزاد پر پی ایچ ڈی کرڈالی۔
ڈاکٹر صاحب کو صوفیوں، درویشوں، درگاہوں سے بہت عقیدت تھی۔ فرخی صاحب نے اِن درویشوں پر چھوٹے چھوٹے کتابچے لکھے حضرت غوث الاعظم حضرت داتا ، خواجہ غریب نواز، خوجہ فرید۔۔۔۔۔۔ بہت چھوٹی مگر مزیدار معلوماتی کتابیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب ہم دونوں اسلام آباد میں تھے تو اُس کی فرمائش پر ہم نے پہلی بار حضرت بری امام کے درگاہ کی حاضری دی۔ ظاہر ہے گاڑیوں کے قافلے سے لے کر وہاں تک کے ادب آداب تک بتانے کا سارا انصرام افتخار عارف کا تھا۔
اُس کی شاعری کے بارے میں بھی میں نے سُن رکھا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ اُس کی گفتگو اچھی لگتی تھی ۔
اِن محفلوں میں وہ ریڈیو پاکستان کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا تذکرہ کرتا ۔ اس نے خود بھی پی ایچ ڈی کراچی سے کی اور درجنوں شاگردوں کو بھی ’’ ڈاکٹر صاحب‘‘ بنوایا۔ طلباء سے محبت کرنے والا اچھا استاد۔
مجھ سے ملنے ضرور آجاتا ۔ مگر مجھے بتائے بغیر وہ کوئٹہ آتا تو مری لیب کے سامنے باہر کھڑا ہوتا۔ اور جب اسے اندازہ ہوتا کہ مریضوں کا رش کم ہوگیا تب وہ اندر آجاتا ، تو صیفی باتیں کرتا، کچھ دعائیں دیتا اور میری پیشہ ورانہ مصروفیت کا کہہ کر اٹھ جاتا۔
اس نے ہر ہر لمحے تو بامقصد صبرکیا۔
اُس کی محترم بیگم ( تاج بیگم) ہمہ تن ہم مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ خود کالج کی تدریس کرتی رہی ہے۔اور وہ خود بھی مصنفہ ہے، کتابوں کی مصنفہ۔ایک معزز مشفق بزرگ خاتون۔ اتوار کے دن توپیرانہ سالی اور صحت میں گڑ بڑ کے باوجود مہمانوں کی خدمت میں ایسی لگتیں کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ بہت عمر کی ہیں۔ سارا وقت باورچی خانے اور ڈرائنگ روم کے درمیان چکر لگاتی، اور ڈاکٹر صاحب کے پی ایچ ڈی شاگردوں میں سے کسی کو کیک پیش کررہی ہیں کسی کے لیے بغیر چینی کی چائے۔ اچھے استاد کی اچھی معلمہ بیگم۔
آصف فرخی اِن دونوں اکیڈمیشنز کا بیٹا ہے جن پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔وہ معروف نقاد ہے۔افسانہ نگار ، مترجم اور استاد ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی کا بیٹا اور شاگرد۔