عشرہ/ مشال خان کی واپسی
ادریس بابر

براہ کرم عمدہ حالت میں وصول فرمائیں
اس کی کتابیں جو جلانے سے بچ رہیں
آپ کو صحیح سالم لوٹاے جا رہے ہیں
اس کے کپڑے جو پھاڑے جانے کے کام نہ آ سکے
کڑھے ہوئے رومالوں مرمت شدہ جرابوں سے پھر لپٹ لیجے گا
پہلے یہ کچھ باقی ماندہ چیزیں تو سنبھال کے رکھ لیں
ہماری زبانوں پہ رکی ہوئی بے شمار گالیاں اور تھوکیں
ہمارے ہاتھ پیروں میں بہ مشکل دبے ہوئے تھپڑ اور ٹھوکریں
تمام چیزیں فہرست کے مطابق چیک فرما لیں
رسید تین دن کے اندر دفتر ھذا میں جمع کرا دیں

عشرہ / Chronophobia
فریحہ نقوی

چلتے چلتے وقت کا پہیہ پیچھے کو مڑ جائے تو؟
سب سے گہرا نقش کبھی سب سے پہلے مٹ جائے تو؟
دیواروں کی ویرانی کو گویائی مل جائے تو؟
دروازے پر دستک دیتا ہاتھ کبھی تھک جائے تو؟
کھڑکی سے بارش کی بوندیں سیدھی دل پر آتی ہیں
سامنے والے دونوں گھروں میں کتنی لڑکیاں رہتی ہیں؟
اچھا۔۔ لیکن۔۔۔ ان چھ دنوں میں نے ان کو دیکھا نئیں
ایسے اچھے موسم میں تو چھت پر آنا بنتا نئیں؟
یہ سب چھوڑیں۔۔ آپ اک دن میں کتنی نظمیں لکھتے ہیں؟
اچھی نظم کو ہونے میں سات آٹھ منٹ ہی لگتے ہیں۔۔۔؟

عشرہ/ (schizophrenic)
وصاف باسط

تم نے کس سے میری بات کہی تھی کل
پاکستان کی ٹیم نے میچ نہیں جیتا
میں دنیا چلانے والوں میں سے ایک ہوں لوگو!
تم بھی میرے قابو میں ہو
میں نے کل سب کو تگنی کا ناچ نچایا
کون سیاست میں آنا چاہتا ہوگا
تم کس ویرانے میں پاگل پھرتے ہو
مجھ کو آوازوں کی بھیڑ سے ڈر لگتا
کتنی آوازیں مجھ کو آکر کہتی ہیں
دنیا تیرے قابو میں ہر پل رہتی ہے۔۔۔۔۔۔

عشرہ / دل ڈھونڈتا ہے
حماد نیازی

ایک منظر جو کسی بھی آنکھ نے دیکھا نہ ہو
ایک دریا جس کے اندر کوئی بھی ڈوبا نہ ہو
ایک لمحہ جو رواں ہو اور کبھی گزرا نہ ہو
ایک دن جس دن سے پہلے رات کا سایہ نہ ہو
ایک چہرہ جس کے اوپر دوسرا چہرہ نہ ہو
ایک رستہ جو کسی بھی سمت کو جاتا نہ ہو
ایک نشہ جو چڑھا ہو اور کبھی اترا نہ ہو
ایک انساں جو اکیلا ہو مگر تنہا نہ ہو
ایک بستی جس کی گلیوں میں کوئی آیا نہ ہو
ایک دنیا جس میں کوئی بھی کہیں رہتا نہ ہو

عشرہ
نصراللہ حارث سنگرا

سوچنے والوں نے لکھنا شروع کیا تو لکھنے والے سوچ میں پڑ گئے
خبر کی دکان 24 گھنٹے کھلنے لگی تو لکھنا آسان اور سوچنا مشکل ہو گیا
ترقی پسندوں نے موضوعات کی جنگ میں مذہبی ہتھیار چلا دیے جو بعد میں اتنے عام ہوئے کہ گلی محلوں میں پھٹنے لگے
ایک دائرہ کھینچ دیا گیا جس میں خبریں گھومتے گھومتے آپس میں ٹکرانے لگی
تاریخ کا ایڈجسٹیبل مجسمہ معمولی ایڈجسٹمنٹ کے بعد سْوٹ ایبل ہو گیا سوچنے والوں کے لیے
برینڈڈ خوف جدید بارکوڈز لگا کے ملفوف کیا گیا تو چھابڑی والوں نے گلی محلوں میں جا بیچا
خوف ایسی جنس شدت کے حساب سے قیمت پاتی ہے
مذہب کا خوف تجسیم کے بعد طاقتور ہوا تو جدت نے مذہب پر کفر کا فتوٰی دھر دیا
خبر ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اللہ خیر کرے

عشرہ/”خدا کا خواب”
ذیشان حیدر نقوی

خدا مرے لیے ہے خواب۔۔۔ اور میں خدا کا خواب
دیکھتے ہیں پہلے کون جاگتا ہے، کس کی نیند ٹوٹتی ہے۔۔۔
کون پہلے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے