میں محبت کاشت کرتی
مگر وقت کی زمین میں
آہوں کا سیم اور تھور بھسس کی طرح بھر دیا گیا ہے
میں ابدیت کا الاپ کرتی
مگر جینے اور مرنے کے درمیان کا وقفہ
مجھے لمبی ہوک لگانے کی اجازت نہیں دے رہا‘
میں تمنا کا سودا تمھارے’خیال سے طے کر لیتی‘
مگر کرنسی کی تبدیلی کے لیے وقت کے منی چینجر کے پاس
مرے زمانے کا سکہ نہیں مل رہا ہے
میں صبح کی چادروں کے کونے میں وصل کی ایک گمشدہ رات باندھ دیتی
مگر جذبوں کو ذمہ داریوں کی تیلیوں سے
کب کی آگ لگائی جا چکی ہے
میں چیڑ اور دیال کے درختوں پر اپنے ناخن کی کھدائی سے
تاریخ رقم کرنے نکلی
مگر میری اْنگلیوں کی پوروں سے
وفورکا خون ٹپکنے لگا
میں نے تمہارے ذانوں پہ لیٹ کر
آسمان کے آوارہ بادلوں کے کونوں کو پکڑ کر
کائناتی جست لگائی
مگر تمھاری قمیص کا دامن
شعور کے بستر کے پائے کے نیچے دبا پڑا تھا
میں بربط و بینا کی اونچی تان کی طرح اپنی کمر سے ایک کمان بناتی
اور سات صدیوں سے آگے تک نشانے لگاتی چلی جاتی
مگر وقت کی رسیوں سے ہمارے پیر باندھ کر
ہمیں زندگی کے تالاب میں ڈوبنے کے لیے
کب کا پھینک دیا گیا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے