اس نے تو ماں کا پیار بھی نہیں لیا تھا
ہوسٹل کے کمرے میں
وہ اپنے لاپتہ ہونے کی نشانیاں
لکھ رہا تھا
باہر اٹھی قیامت سے کیا وہ ڈر گیا تھا
نہیں وہ تو لکھ رہا تھا
مت ڈراؤ لوگوں کو ان کا نام لے کر
جنہوں نے اپنے دشمنوں سے بھی
صلح کی تھی
مت پھیلاؤ وہ جنون
جو صرف موت لکھتا ہے
وحشیانہ موت
ہر سمت موت
اِدھر ماں گھر پر انتظار کررہی تھی
اُدھر موت کو ساتھ ساتھ لیے
وہ خونی آنکھوں والے لوگ
تمہارے کپڑے تار تار کر رہے تھے
تمہیں بوٹی بوٹی کرتے ہوئے
وہ شیطان صفت لوگ
قہقہے لگارہے تھے
شمر، جیسے لوگوں کی ٹھوکریں
کھاتے ہوئے ، وہ چلا گیا
مگر وہ گیا کہاں ہے
ہر چینل ، ہر اخبار
دنیا بھر کے گلی محلوں میں لوگ
انسانیت کو بے آبرو ہوتا دیکھ رہے ہیں
وہ تو گیانہیں ہے
وہ تو اسلام فروشوں کے ہاتھوں پر
پسینہ بن کر موجود ہے
تمہیں یاد ہے نا
تم جیسے معصوم
کبھی بھٹی میں پھینک دیے گئے
تو کبھی پوری کی پوری
بستی جلا دی گئی
یاد کرو عباسیوں کے زمانے کو
دیکھو گؤ ماتا کا نام لے کر
بھارت میں کیا ہورہا ہے
عراق، شام اور یمن میں
بچوں کے ہسپتالوں پر
بم مارے جارہے ہیں
اب تو عدالتوں کے حروف بھی
پردہ اوڑھے کھڑے ہیں
تم پر الزام لگاتے ہوئے
تمہارے اپنے استاد
نہیں نہیں شرم کرو
استاد کا لفظ ، ان کے لیے
استعمال مت کرو
یہ تو تعلیم بیچنے والے ہیں
جو ہمارے اداروں پر حاوی ہیں
اب تو ایمان، اخلاق
سب کچھ بک چکا ہے
اب تو بس دیوارِ گر یہ باقی ہے
وہ بھی تو ہماری دسترس میں نہیں ہے۔
ہماری دسترس میں صرف ماتم ہے
بھٹو کو اِسی اپریل کے مہینے میں
پھانسی چڑھانے والوں کو، کونسا
ہم نے ماردیاتھا!۔
وہی قبیلہ ، اپنی بزدلی پہ نازاں
فیصلے بھی کرتا ہے اور حکومت بھی
اس، اپریل کے مہینے نے
ہمیں بہت رلایا ہے
کاش رو کر ہی
تاریخ اپنی نحوست کو
دھوسکتی !۔