مچا ہوا ہے خداؤں کی ان کہی کا شور
مگر وہ گونج کہ کھا جائے گی سبھی کا شور
تمام رات مہکتا تھا اس کی ٹیبل پر
گلابِ تازہ کی خوشبو میں فروری کا شور
شجر کی تابِ سماعت پہ داد بنتی ہے
یہ سنتا آیا ہے صدیوں سے آدمی کا شور
اے ناخداؤ سمندر کو مت سنا دینا
ہماری ناؤ میں اسباب کی کمی کا شور
بڑے سلیقے سے آ کر قضا نے چاٹ لیا
زمیں کے صحن میں برپا تھا زندگی کا شور
بس ایک بار زمانے کے در پہ دستک دی
اب ایسے کون مچائے گھڑی گھڑی کا شور